معاشیات کی تشکیلِ جدید اور مولانا مودودی کی رہنمائی

590

آخری حصہ
موجودہ سرمایہ دارانہ سماج کا ایک بڑا المیہ مالی معیشت اور حقیقی معیشت میں بڑھتی ہوئی خلیج ہے۔ آج کی دنیا، حقیقی اور معنوی رقوم کے سیلاب کی لپیٹ میں ہے جس میں اضافی قدر پیدا کرنے کا ٹھوس عمل، عالمی انسانی برادری کی حقیقی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ایسی خود مختار فضا قائم کردی گئی ہے، جس میں دولت کو دولت کھینچتی ہے، لیکن حقیقی معیشت میں کوئی بڑھوتری نہیں ہوتی۔ اْدھار کو حقیقی دولت پیدا کرنے کے لیے صرف استعمال ہی نہیں کیا جاتا بلکہ یہ خود ایک الگ معیشت بن گئی ہے۔ گھروں، کاروباری اداروں اور ریاستوں سمیت ہر سطح پر گویا سودی قرض کے پھیلائو کی ایک دھماکا خیز صورتِ حال ہے، جس سے پیدا ہونے والے بلبلے پھیل بھی رہے ہیں اور بڑھ بھی رہے ہیں، لیکن مصنوعات اور خدمات کی حقیقی فراہمی، جو انسانی ضروریات اور سہولت کا باعث بنیں، ان میں اضافہ نہیں ہو رہا۔
مولانا مودودی اسلامی معاشیات کے چلن سے اقتصادی میدان میں حقیقی وسائل کے درمیان ربط کو بحال کرنے کی دعوت پیش کرتے ہیں۔ سابق امریکی صدر اوباما بھی ایک تقریر میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ ’’دنیا کو معاشی انجینئرنگ سے زیادہ حقیقی انجینئرنگ کی ضرورت ہے‘‘۔ دنیا کی معیشت کی موجودہ صورت حال سخت تشویش ناک ہے، جس میں بیرونی زرمبادلہ کی روزانہ خریدوفروخت اشیا و خدمات کی حقیقی بین الاقوامی تجارت سے تقریباً پچاس گنا زیادہ ہے۔
یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلامی معاشیات کی بنیادی خصوصیت، حقیقی معیشت اور اثاثہ جات کی پیداوار کا باہم تعلق ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے ذمہ دار عوامل میں ربا (سود)، میسر (تخمینے کی بنا پر خرید و فروخت) اور غرر (تلون اور ابہام) شامل ہیں۔ اسلام ان سب کو حرام قرار دیتا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ایک قرطاس عمل (ایکشن پلان) میں یہ دلچسپ تبصرہ موجود ہے: ’’اسلامی بینکوں کی کارکردگی کا عالمی سطح پر روایتی بینکوں سے موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں معاشی بحران کے نتیجے میں روایتی بینکوں کو جو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کے پیش نظر اسلامی بینکوں کی کارکردگی بہتر رہی ہے‘‘۔
اسلامی معاشیات پر نظری اور عملی حوالوں سے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کا اثر کم ازکم تین سمتوں میں واضح نظر آتا ہے:
اوّل:یہ کہ انہوں نے نہ صرف قرآن اور سنت کی معاشی تعلیمات کو پوری وضاحت اور اس مضمون پر پوری گرفت کے ساتھ بیان کیا بلکہ اسلامی معاشیات کی ایک الگ شعبہ ٔ علم کے طور پر تشکیل کا عملی آغاز بھی کیا۔ اسلامی نقطہ ٔ نظر سے معاشیات کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق میں گزشتہ پچاس برس کے دوران نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اس مقصد کے لیے متعدد تحقیقی ادارے قائم ہوئے ہیں۔ درجنوں بین الاقوامی کانفرنسوں اور لاتعداد سیمی ناروں اور مباحثوں کے ذریعے اس جدید اور اْبھرتے ہوئے شعبہ ٔ علم کو مختلف پہلوئوں سے پروان چڑھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ مسلم دنیا میں الگ سے اور اس سے باہر ڈیڑھ سو سے زائد یونی ورسٹیوں میں اسلامی معاشیات کو ایک تدریسی شعبہ ٔ علم کے طور پر الگ سے شامل کیا جاچکا ہے۔ اس پیش قدمی میں سیّد مودودی کا کردار نمایاں ہے۔
دوم: یہ کہ مولانا مودودی محض ایک کتابی مفکر نہ تھے۔ اسلام، تبدیلی چاہتا ہے اور مولانامودودی نے مرد و خواتین کی روحانی اور اخلاقی قلب ماہیت کے لیے اور اسلام کے طے کردہ معیارات، اقدار اور اصولوں پر مبنی ایک نئے سماجی نظام کے قیام کے لیے عالمی تحریک کی تشکیل اور تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مولانا مودودی کا اصل مقصد اسلامی نظام کو اس کی مکمل شکل میں قائم کرنا تھا۔ گویا ان کا پیغام یہ تھا کہ اسلامی معیشت، سماجی تبدیلی کے بغیر نمو نہیں پا سکتی۔ لہٰذا، اسلامی معاشیات کے تین پہلو ایک دوسرے سے وابستہ بلکہ باہم پیوست ہیں، یعنی: اس کا اخلاقی و معیاری پہلو، ایجابی یا تجزیاتی پہلو، اور معیشت و معاشرت میں تبدیلی کے لیے اس کا تغیر اتی کردار۔
اسلامی معاشیات کو عملی شکل دینے کے لیے مولانا مودودی نے فرد اور معاشرے کے طور پر بھی اور سماج اور ریاست کی سطح پر بھی مسلمانوں کی معاشی زندگی کی تشکیل نو پر بھی مسلسل زور دیا۔ اسلامی معیشت، بینکاری اور انشورنس کے لیے عالمی تحریک کا ظہور پزیر ہونا پیش نظر رہنا چاہیے۔ دیگر حوالوں سے ہونے والی پیش رفت میں زکوٰۃ، صدقات اور انفاق سے متعلق تعلیمات کو باقاعدہ شکل دینے کے لیے تنظیموں کا قیام اہم ہے۔ یہ پیش رفت اسلام کی عصری تشکیل کے معاشی پہلو کی آئینہ دار ہے۔ تاہم، مولانا مودودی زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ ساری کوششیں ایک بڑی تبدیلی، یعنی سماجی، معاشی اور سیاسی منظرنامے کی جامع تبدیلی کے لیے محض ایک نقطہ ٔ آغاز ہیں۔
پھرمولانا مودودی کا اثر پالیسی سازی کے میدان میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے معاشی فیصلہ سازی کے ہر مرحلے پر فرد، کاروباری اداروں، معاشرے اور ریاست کے حوالے سے پورے منظرنامے کو نئے سرے سے تشکیل دینے پر زور دیا ہے۔ ان سب کا مقصد ایک عادلانہ معاشرے کا قیام ہونا چاہیے۔ مسلم ممالک کے وہ دساتیر جو مولانا مودودی کے اصل عرصہ ٔ تصنیف و تحقیق سے قبل لکھے گئے تھے، ان کا موازنہ اسلامی احیا کی تحریکوں کے زیر اثر بننے والے دساتیر سے کیا جائے تو حیرت انگیز مشاہدات سامنے آئیں گے۔ اگر صرف تین مثالیں مقصود ہوں تو پاکستان، ایران اور سوڈان کے دساتیر میں ریاستی پالیسی کے لیے وضع کردہ رہنما اصول، اسلام کے سماجی و معاشرتی معیارات اور احکام پر مبنی اس نئی معاشی فکر کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔