کے الیکٹرک کے خلاف عوامی ریفرنڈم

463

کے الیکٹرک جب سے وجود میں آئی ہے اس نے کراچی کے عوام کا جینا محال کیا ہوا ہے۔ کے الیکٹرک نے اپنے قیام کے اول روز سے کراچی کے عوام کی جو درگت بنائی کہ الامان الحفیظ۔ کے الیکٹرک کے مالکان نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اپنی مٹھی میں لیا۔ ان کے لوگوں کو اعلیٰ عہدے اور بھاری تنخواہوں پر ملازمتیں ودیگر مراعات دی گئیں۔ جس کے نتیجے میں کے الیکٹرک کے خلاف کوئی بھی سیاسی جماعت ایک لفظ بھی بولنے کو تیار نہیں تھی۔ کے الیکٹرک کو مکمل آزادی حاصل تھی کہ وہ جس طرح اور جیسا چاہے عوام کے ساتھ لوٹ مار کرے کوئی اسے روکنے اور ٹوکنے والا نہیں۔ ایک جانب اربوں روپے کے تانبے کے تار بیچ کھائے اور دوسری جانب اوور بلنگ، جعلی فیول ایڈجسٹمنٹ ودیگر ناجائز ٹیکسوں کے ذریعے عوام پر وہ ظلم ڈھائے کہ کراچی کا ہر شخص چیخ اٹھا لیکن جماعت اسلامی کے سوا کوئی کے الیکٹرک کے مظالم کے خلاف بولنے کو تیار نہیں تھا۔ جماعت اسلامی کے الیکٹرک کے خلاف عدالت بھی جاپہنچی اور نیپرا کے سامنے کے الیکٹرک کی ظلم وزیادتیوں کو بھی آشکار کیا۔
تازہ ظلم میونسپل چارچز کے نام پر لگنے والا نیا ٹیکس ہے۔ جماعت اسلامی نے اس کھلی بد معاشی اور لوٹ مار کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی اور اسے چیلنج کیا اس کے علاوہ پورے کراچی میں کے الیکٹرک کی لوٹ مار کے خلاف عوامی ریفرنڈم کا انعقاد کیا۔ پہلے یہ ریفرنڈم صرف تین دن تک کے لیے محدود کیا گیا تھا لیکن عوام کے زبردست جوش وخروش، جذبے کو دیکھتے ہوئے مزید تین یوم کا اضافہ کیا گیا اس طرح مسلسل چھے یوم تک جماعت اسلامی کے کارکنان نے گلی گلی کوچے کوچے عوامی ریفرنڈم کا انعقاد کیا اور عوام سے میونسپل چارچز ودیگر ناجائز ٹیکسوں کے خلاف رائے لی گئی۔ جمعہ کے دن پورے شہر کی مساجد کے باہر خصوصی کیمپ قائم کیے گئے اور لاکھوں افراد نے اس عوامی ریفرنڈم میں حصہ لیکر اپنی آراء کا اظہار کیا۔ اس ریفرنڈم میں جہاں عام شہریوں نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا وہاں زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں ڈاکٹر، انجینئر، مزدور، تاجر، صنعت کار، اساتزہ کرام، صحافی، علماء کرام، وکلا، کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ وطالبات۔ خواتین، کھلاڑی، ادبی شخصیات، شعراء کرام ودیگر طبقات شامل تھے ان سب نے اس عوامی ریفرنڈم کو کراچی کی مظلوم عوام کی آواز اور جماعت اسلامی کراچی کا احسن اقدام قرار دیا گیا۔
جبکہ دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ میں جماعت اسلامی نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے لیے کے الیکٹرک کے بجلی کے بلوںکے ذریعے میونسپل یوٹیلیٹی چارچز اینڈ ٹیکسیز کی وصولی کے خلاف درخواست دائر کی جس پر سماعت کے دوران ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ایڈمنسٹریٹر کراچی سے استفسارکیا کہ کس قانون کے تحت یہ ٹیکس وصول کیے جائیں گے، شہر میں کچرا تو اٹھ نہیں رہا، اسٹریٹ لائٹس خراب ہیں۔ کے الیکٹرک کے خلاف عوام میں نفرت بڑھ رہی ہے اور لوگ کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں کچرا پھینک رہے ہیں۔ کے ایم سی پیسے وصول کر رہی ہے تو سروسز بھی فراہم کرے۔ عدالت عالیہ نے آئندہ سماعت تک کے الیکٹرک کے بلوں میں کے ایم سی ٹیکس کی وصولی روکتے ہوئے کہا کہ جب آپ ہمیں مطمئن کر دیں گے تو ہم اس ٹیکس کو بحال کر دیں گے۔ ہم کسی ٹیکس وصولی کے خلاف نہیں ہیں مگر کے الیکٹرک کے ذریعے وصول نہ کریں۔ جس پر مرتضیٰ وہاب نے ایڈمنسٹر یٹر کراچی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور اپنا استعفا وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کردیا اور کہا کہ میں پارٹی قیادت کے فیصلوں کا پابند ہوں۔
کے ایم سی جو پہلے ہی پراپرٹی اور وہیکل ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کی وصولی کرتی ہے یہ پیسہ بھی اگر یہ لوگ ایمان داری کے ساتھ ترقیاتی کاموں میں لگا دیتے تو کے ایم سی کو کسی بھی نئے ٹیکس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گزشتہ سال انفرا اسٹرکچر ٹیکس کی مد میں کے ایم سی نے 8ارب روپے وصول کیے تھے اس کے علاوہ اکٹرائے ضلع ٹیکس، موٹر وئیکل ٹیکس بھی کے ایم سی وصول کرتی ہے لیکن ان سب کے باوجود کراچی روز بروز کھنڈر بنتا جا رہا ہے پورے شہر کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی گزشتہ 14سال سے اس صوبے اور شہر کی سیاہ سفید کی مالک بنی ہوئی ہے اس دوران کراچی کا پانچ ہزار ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ کہاں خرچ کیا گیا۔
بدقسمتی سے حکومتوں کی سرپرستی نے کے الیکٹرک کو آج ایک مافیا بنا دیا ہے۔ حکومت، نیپرا اور کے الیکٹرک کا شیطانی اتحاد شہریوں سے لوٹ مار کر رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ کے الیکٹرک کے تمام سہولت کاروں کے چہرے عوام کے سامنے لائے جائیںاور انہیں بے نقاب کیا جائے۔ حکومت کے الیکٹرک کی نج کاری کو منسوخ کر کے اسے فوری طور پر قومی تحویل میں لیکر اس کا فارنزک آڈٹ کرایا جائے۔ جعلی فیول ایڈجسٹمنٹ سمیت دیگر تمام ناجائز ٹیکس ختم کیے جائیں، کلا بیک کے پچاس ارب روپے عوام کو واپس دلائے جائیں۔ جماعت اسلامی کے تحت ہونے والے عوامی ریفرنڈم میں لوگوں نے لائن لگا کر حصہ لیا اور کے الیکٹرک کے ناجائز ٹیکسوں کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا جس میں کے الیکٹرک کے بلوں میںکے ایم سی یوٹیلیٹی ٹیکس، ٹی وی لائسنس فیس سمیت دیگر ٹیکسوں اور جعلی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجزکے نام پر اضافی وصولیوںکے خلاف اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بلاشبہ جماعت اسلامی کراچی کے تحت کے الیکٹرک کی لوٹ مار اور ناجائز ٹیکسوں کی وصولیابی کے خلاف ہونے والا عوامی ریفرنڈم کراچی کے مظلوم عوام کے دلوں کی آوازہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے شہریوں کو اپنے احتجاج کے لیے ایک منفرد اور جمہوری حق استعمال کرنے کا راستہ دکھایا ہے اور تین کروڑ عوام کی جانب سے عوامی ریفرنڈم کے ذریعے کے الیکٹرک کو یہ پیغام دیا ہے کہ کے الیکٹرک اب اپنی لوٹ مار بند کرنا ہوگی ورنہ عوام کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا ہے اورکراچی کے عوام اب خود کے الیکٹرک کا بوریا بستر گول کردیں گے۔