ڈالر کی پرواز اور اسحاق ڈار

569

اے ابن آدم مبارک ہو ڈالر کے بہترین کھلاڑی تشریف لے کر آگئے۔ اللہ اب قوم کے حال پر رحم فرمائے۔ پاکستانی معیشت عملاً تباہ ہوگئی ہے، ڈالر کی اُڑان جاری ہے، یہی ڈالر جو کبھی 62 روپے کا تھا آج 262 روپے کا ہے۔ لگتا ہے فری فلوٹنگ کی پالیسی ڈالر کو اور اُوپر لے جائے گی۔ سونے کی قیمت بھی اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے اور گورنر اسٹیٹ بینک فرما رہے ہیں کہ تسلی رکھیں، ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ اس وقت تمام تاجر سرمایہ کار پریشان ہیں، ڈالر کسی طرح کنٹرول نہیں ہورہا۔ ارے جب ملک کے کرپٹ سیاست دان، کرپٹ بیوروکریٹ اپنی دولت کو ڈالرز میں بدل کر ملک سے باہر بھیج دیں گے تو ڈالر کی اُڑان کس طرح سے رُکے گی۔ کاش میرے ملک کے یہ کرپٹ عناصر بیرونی ممالک سے اپنے ڈالر ملک میں واپس لے آئیں تو کچھ ہوسکے گا۔ بقول ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کے ابھی صورت حال قابو میں ہے، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 9.3 ارب ڈالر اور سونے کی قدر 3.8 ارب ڈالر ذخائر کے علاوہ ہے، جو مزید کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ اُن کے بقول روپے کی قدر میں کمی کی وجہ امریکی ڈالر کی قدر میں بین الاقوامی سطح پر اضافہ ہے اور ڈالر کی طلب اور رسد کا فرق ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ درآمدات میں کمی آئے گی اور طلب و رسدکا فرق بتدریج کم ہوتا چلا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کو مجبور کیا جائے کہ درآمدی بل کم سے کم کیا جائے اور غیر ملکی اشیا غیر ضروری طور پر درآمد کرنے والے بھی یہ سوچیں کہ اپنے معمولی منافع کی خاطر وہ ملک کی معیشت کا بھٹہ بٹھانے والا کام کررہے ہیں۔ ابن آدم کا یہ سوال ہے کہ درآمد برآمد میں توازن پیدا کرنا اور ڈالر کی رسد و طلب کو کنٹرول کرنا کس کی ذمے داری ہے۔ اسٹیٹ بینک کو دیگر بینکوں کے معاملات تو دیکھنے چاہئیں جو یہ بھی نہیں دیکھ پارہا ہے کہ جو شرح اسٹیٹ بینک ڈالر کی بتا رہا ہے بینکس اس سے 10 سے 20 روپے اضافی وصول کررہے ہیں اور اسٹیٹ بینک نے خاموشی اختیار کررکھی ہے، ایک تو ڈالر کی شرح تبادلہ ایک دن بھی مستحکم نہیں رہتی اس پر بینکس LC کھولنے میں بھی رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں۔ ایوان صنعت و تجارت کے قائم مقام صدر سلیمان چائولہ نے بھی کہا ہے کہ ڈالر کنٹرول کیے بغیر پٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں کمی ممکن نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈالر کی شرح متعین کرے تا کہ برآمد و درآمد کنندگان کوئی سودا کرسکیں۔ ملک فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔
یہ سچ ہے کہ ہمارے ملک میں آج سے نہیں کئی سال سے سیاسی عدم استحکام ہے جس کے نتیجے میں ہماری معیشت زوال پزیر ہوتی جارہی ہے۔ میں اس کا الزام صرف مسلم لیگ (ن) کو نہیں دیتا بلکہ یہ ایک تسلسل ہے جو مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، فوجی حکومت اور اب پی ڈی ایم سب اس عدم استحکام میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ 75 برس میں ان سیاسی جماعتوں نے ثابت کردیا کہ یہ ملک چلانے نہیں بلکہ ملک کو لوٹنے آتے ہیں۔ میں جو اپنے کالموں میں یہ لکھتا ہوں کہ عوام کو ایک موقع جماعت اسلامی کو ضرور دے کر دیکھنا چاہیے اُس کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ میں نے جماعت کے کسی لیڈر کو کرپشن کے کسی بھی کیس میں ملوث ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور کوئی بھی ملک اس وقت ہی ترقی کرتا ہے جب اس کے حکمران اور ملکی ادارے ایماندار ہوں۔ میرے حلقے کے احباب کہتے ہیں کہ ابن آدم تو جماعتی ہے تو میں کہتا ہوں کہ مجھے فخر ہے کہ میں ایک ایماندار پارٹی کا ایک چھوٹا سا کارکن ہوں، مجھے جماعت اسلامی نہ تو وزیر بنائے گی نہ سینیٹر مگر جو حق اور سچ ہے اُس کو تو میں لازمی لکھوں گا۔ میں نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو قریب سے جا کر بھی دیکھا، دونوں کی سوچ و فکر لسانیت کو فروغ دینا ہے۔ یہ ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ ہمارے ملک کا ہر گروہ خود کو آئی ایم ایف کا زیادہ بڑا خادم ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ اسحاق ڈار بھی بڑے خادموں میں سے ایک ہیں، اُن کے ملک میں قدم رکھتے ہی 3 روپے ڈالر پر کم ہوگئے اور سونے پر بھی کمی نظر آئی۔ یہ تو شروع ہے ابھی ڈالر پر اور بھی کمی دیکھنے میں آئے گی مگر مہنگائی میں کوئی کمی نظر نہیں آئے گی۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے تو بے حد بیڑہ غرق کیا تھا، انہوں نے تو بیل آئوٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف میں جانے سے پہلے ہی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کردی تھی اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا تھا، ٹیکسوں میں اضافہ کیا، اسٹیٹ بینک نے کرنسی کو ایڈجسٹ کیا تو ڈالر نے ایک بڑا جھٹکا لیا تھا اور 109 سے 170 پر پہنچ گیا تھا۔ پھر عمران خان نے سب سے بڑی غلطی کی جو قوم کو کب تک بھگتنی پڑے گی اسٹیٹ بینک جو ملک و قوم کی ملکیت ہوتا ہے اس کو حکومت پاکستان کے قانون سے آزاد کردیا، قانون سازی کرکے قوم کو عملاً آئی ایم ایف کا غلام بنادیا، قانون سازی میں بھی ساری جماعتیں شامل تھیں سوائے جماعت اسلامی کے۔ آج پی ڈی ایم والے پی ٹی آئی پر اور پی ٹی آئی والے ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں اور ملک کا مزید بیڑا غرق ہورہا ہے۔
میرے استاد محمد محسن اپنی مشہور کتاب ’’آٹھواں آسمان‘‘ کے صفحہ نمبر 527 پر اسحاق ڈار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: اس ملک کی معیشت اور معاشی حالات کو لنگڑا لولا کرکے ڈار بیماری کا بہانہ بنا کر ملک چھوڑ گئے۔ میاں صاحب کے پاس اُن سے زیادہ وفادار، قابل اور چلا ہوا کارتوس نہیں تھا۔ جو کشمیری بھی تھا، لاہوری بھی تھا، اتفاق بھی کرتا تھا اور ملک کی ایسی کی تیسی کرنے کا تجربہ بھی رکھتا تھا۔ شریفوں کی ڈارلنگ یعنی اُن کا سمدھی بھی۔ لندن میں اپنا بڑا کاروبار، اس نے شریفوں کی دولت کو ڈالر کی شکل میں ملک سے باہر بھجوایا اور اپنے ہی دور میں 66 روپے سے ڈالر کو 110 تک پہنچادیا۔ ڈار کا ڈالر سے رشتہ بہت پکا ہے جب ہی تو شریفوں نے اُن کو سمدھی بنالیا۔ اب وہ شریفوں کی ملک سے باہر رکھی ہوئی دولت کو بڑھانے کے ذمے دار ہیں اب یہ مہنگائی کم کرنے میں اسحاق ڈار کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد۔