قرض، سیلاب اور سود کی لعنت میں ڈوبی قوم

460

ہمارے ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے ملک کی معیشت پوری کی پوری قرض میں ڈوبی ہوئی ہے اس قرض کے ختم ہونے کا تو ہم فی الحال سوچ بھی نہیں سکتے لیکن اس کے کم ہونے کا بھی دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے بلکہ قرض کا حجم روز بروز بڑھتا جارہا ہے، جہاں تک سود کا معاملہ ہے اس میں وہ سود بھی شامل ہے جو ہمیں ان قرضوں پر ادا کرنا پڑتا ہے اور اس میں وہ سود بھی شامل ہے جو ملک کے اندر کی معیشت میں رائج ہے۔ 1991 میں جب وفاقی شریعت عدالت نے بینک انٹرسٹ کو سود قرار دیا 1992 میں جب ملک میں نواز شریف وزیر اعظم تھے ان کی حکومت نے وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا جس کی 1999 تک سماعت نہ ہو سکی۔ پاکستان میں دینی جماعتوں نے بالعموم اور جماعت اسلامی نے بالخصوص جو کوششیں کی ہیں اس کا ایک مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔
1948 میں اسٹیٹ بینک کی عمارت کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا: ’’ہمیں مساوات اور معاشرتی انصاف کے حقیقی اسلامی تصور پر مبنی ایک معاشی نظام دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا‘‘ 1956 اور 1962 کے آئین میں ربا کے خاتمے کی شق شامل کی گئی تھی۔ 1969 میں اسلامی مشاورتی کونسل نے ملک میں رائج نظام بینکاری کے تحت جاری کیے جانے والے قرضوں اور اسکیموں کو سودی قرار دیا تھا۔ پھر 1973 کے دستور کی دفعہ 38F میں طے کیا گیا کہ سود کو جلد از ختم کرنا ریاست کی منصبی ذمے داری ہے۔ واضح رہے کہ 1971 میں ملک ٹوٹ چکا تھا مغربی پاکستان میں اکثریت کی بنیاد پر بھٹو صاحب چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے جب اس وقت کی اپوزیشن نے اس پر سخت تنقید کی کہ ایک سول فرد پر مارشل لا کی ٹوپی جچتی نہیں ہے اس ٹوپی کو اُتارنے کے لیے بھٹو صاحب نے 1972میں ایک عارضی دستور نافذ کیا جو مارشل لا کی کاربن کاپی تھا اس پر اپوزیشن رہنمائوں کو شدید اعتراضات تھے لیکن بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک سال کے لیے ہے اگست 1973 میں اپوزیشن رہنمائوں کی مشاورت سے مستقل دستور بنا لیا جائے گا اس وقت سقوط مشرقی پاکستان کی وجہ سے پوری قوم صدمے کی کیفیت میں تھی اس لیے اپوزیشن کی جماعتیں جس میں زیادہ تر دینی جماعتیں تھیں اس پوزیشن میں نہ تھیں کہ اسلامی دستور کے لیے کوئی تحریک چلائی جائے اس لیے یہ سوچا گیا کہ بھٹو صاحب سے مذاکرات کرکے اس دستور کو جس حد تک اسلامی بنایا جاسکے اسے بنا لیا جائے اس وقت ہمارا آئین ایسا ہے کہ اگر اس کو اخلاص نیت کے ساتھ نافذ کردیا جائے تو ملک میں 70فی صد اسلامی نظام نافذ ہو جائے اس لیے سود کے بارے میں بس اتنی بات لکھی گئی سود کو جلد از جلد ختم کرنا ریاست کی منصبی ذمے داری ہے۔
1977 میں اسلامی نظریاتی کونسل کو غیر سودی معیشت کے قیام کے لیے سفارشات مرتب کرنے کا کام تفویض کیا گیا واضح رہے کہ 1973کے دستور میں اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا وہ ملک میں رائج غیر اسلامی قوانین کو اسلامی بنانے کے لیے اپنی سفارشات و تجاویز مرتب کرکے حکومت وقت کو
دے گی۔ اسی سلسلے میں سود کے حوالے سے بھی سفارشات مرتب کرنے کی ذمے داری دی گئی۔ 1980 میں کونسل نے اپنی رپورٹ شائع کی۔ جب حکومت نے 1992 میں وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تو 1999 میں عدالت عظمیٰ نے وفاقی شریعت عدالت کے 1991کے فیصلے کو درست قرار دیا اور سودی قوانین کے خاتمے کے لیے جون 2001 کی تاریخ مقرر کردی۔ جون 2002 میں عدالت عظمیٰ کے نئے شریعت اپیلٹ بینچ نے سابقہ دونوں فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا اور معاملہ ازسرنو جائزے کے لیے واپس وفاقی شریعت عدالت کو ریمانڈ کردیا۔ پھر 2013 میں گیارہ برس بعد وفاقی شریعت عدالت میں ریمانڈ شدہ کیس سماعت کے لیے مقرر (fix) کیا گیا مگر متعدد سماعتوں کے باوجود عدالت نے فیصلہ نہیں دیا۔ بینچ بنتے رہے اور ٹوٹتے رہے ہر بار سماعت گویا ازسر نو شروع کی جاتی رہی۔
اپریل 2022 کو وفاقی شریعت عدالت نے نہ صرف بینک انٹرسٹ کو ربا یعنی سود قرار دے دیا بلکہ مختلف اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے تین ٹائم فریم بھی دیے پہلا تو یہ کہ 10قوانین ایسے ہیں جن کے بارے میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ وہ یکم جون 2022 کو ختم ہو جائیں گے، دوسرا نکتہ یہ تھا کہ سود کو تحفظ دینے والے تقریباً 26 قوانین کی جگہ نئے قوانین بنانے کے لیے 31دسمبر 2022 کی ڈیڈ لائن دی گئی فیصلے کا تیسرا نکتہ یہ تھا کہ 31دسمبر 2027 تک پورے سودی نظام کو مکمل طور پر غیر سودی نظام (اسلام کے عادلانہ نظام معیشت) میں تبدیل کرنا ہوگا۔ جون 2022 یعنی شہباز حکومت کے دور میں اسٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں سمیت 26ادارے اور کچھ افراد شریعت عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل میں چلے گئے جس کے نتیجے میں شریعت عدالت کا حالیہ فیصلہ پھر معطل ہوگیا۔
سود پر پابندی کے محوالے جو تفصیل اوپر دی گئی ہے اس میں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ پہلی مرتبہ جب شریعت عدالت کے فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں لے جایا گیا اس وقت ملک میں نواز شریف وزیر اعظم تھے اور اب اس سال جون کے مہینے میں شریعت عدالت کے فیصلے کے خلاف کچھ بینک ادارے اور افراد اپیل میں گئے ہیں تو ملک میں نواز شریف کے بھائی شہباز شریف وزیر اعظم ہیں۔ شریف خاندان بہت حد تک اسلامی روایات کے قریب تر سمجھا جاتا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ سود لینے اور دینے والا اور اس کو قائم دائم رکھنے والا دراصل اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرتا ہے۔ ابھی حال ہی میں جس طرح اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے دنیا میں ماحولیاتی تغیرات کے حوالے سے ترقی یافتہ قوموں کو متنبہ کیا کہ ہمیں فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چاہیے ورنہ اس کے خوفناک نتائج ہو سکتے ہیں اسی طرح ہم موجودہ حکمرانوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں قدرت سے جنگ نہیں چھیڑنا چاہیے ورنہ اس کو بڑا خوفناک انجام ہو سکتا ہے۔
عوام کے بہت زیادہ مطالبے اور دینی جماعتوں کے احتجاج پر حکومت کی جانب سے ایک ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جبکہ اپیلوں کو تاحال واپس نہیں لیا گیا۔ ان تاخیری حربوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں ہم 73سال گزرنے کے باوجود دین حق اور شریعت کے نفاذ کے بر عکس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے حالت جنگ میں ہیں اور اس کے تباہ کن نتائج سے دوچار بھی ہو رہے ہیں۔