عدلیہ میں شگاف

356

آخری حصہ
قانونی مو شگافیوں، پیشی در پیشی کی اذیت ناک عذاب نے بابا جی کو قبر کے دہانے پرکھڑ ا کر دیا ہے۔ وہ کئی بار خودکشی کا ارادہ کر چکے ہیں مگر ہماری دل جوئی نے اس ارادے سے باز رکھا ہے ہم باور کر چکے ہیںکہ جج اور جسٹس صاحبان خدا کی نیابت کا فریضہ بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرنے کے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ مسند ِ انصاف پر جلوہ افروز ہونے والے کچھ لوگ شیطان کی جانشینی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ سفید شیروانیوں میں بھی تو کالی بھیڑیں ہوتی ہیں۔ وکلا اور بار کونسل دیانت دار جسٹس صاحبان کی راہ میں حائل ہو کر انصاف کو فائلوں میں دفن کر دیتے ہیں۔ بزرگ یہ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ انصاف کی راہ میں وکلا رکاوٹ ہیں کیونکہ وکلا مقدمات سے ببل گم کی طرح کھیلتے رہتے ہیں۔
اکیس ستمبر 2022ء کی پیشی پر پرانے مقدمات کی پیشی یقینی تھی تاکہ ان کا فیصلہ سنایا جائے کیونکہ عدالت عظمیٰ نے 2014ء تک کے تمام مقدمات کا فیصلہ جلد از جلد سنانے کی ہدایت کی ہے مگر ہدایات پر عمل پیرا ہونے والے نہیں چاہتے کہ عدالتوں کی رونق کم ہو لہٰذا وکلا برادری نے فیصلہ کیا کہ جلد از جلد فیصلے سے بچنے کے لیے بحث سے بچا جائے سو انہوں نے ایسے مقدمات کی سماعت ملتوی کرا دی پیشی ملتوی کرانے کا سبب لفٹ اوور کے ہتھوڑا کا حصول تھا۔ لفٹ اوور کا ہتھوڑا فریادی کے منہ پر مار دیا جائے تو اس کی ضرب سے پیشی پر آنے والا ہی نہیں بابائے قوم کی روح بھی کانپ اٹھتی ہے۔
بابا جی کو اسپتال میں داخل کرادیا گیا ہے۔ ان کا بلڈ پریشر اور شوگر بڑھ گئی تھی دوسرے دن ہم ان سے ملنے گئے تو انہیں بیماری سے زیادہ پیشی کی فکر تھی وہ کہہ رہے تھے پیشی اگلے سال ہی ملے گی اور وہ سال بھی اسی طرح گزر جائے گا کیونکہ عدالتوں کا سال پانچ سے چھے سال کا ہوتا ہے۔ ہائی کورٹ کا ہفتہ پانچ دن کا ہوتا ہے۔ دیگر چھٹیاں شامل کی جائیں تو ایک مہینے میں جسٹس صاحبان پندرہ دن مسند انصاف پر براجمان ہوتے ہیں موسم گرما میں گرمی ان کے دماغ میں چڑھ جاتی ہے اور سردی کے موسم میں ٹھنڈ ان کے فرض کو منجمد کردیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جسٹس صاحبان ایک سال میں بمشکل چار ماہ عدالت میں آتے ہیں۔ اور ان چار مہینوں میں چارپائی توڑنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ وکلا جسٹس صاحبان کے بینچ کو ہومیو پیتھی بینچ کہتے ہیں۔ ہومیو پیتھی کے بارے میں کہا جاتا ہے اس کی دوا سے آرام نہ آئے تو کسی قسم کی بے آرامی بھی نہیں ہوتی گویا ہومیو پیتھی بینچ کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بینچ مسند انصاف کی تذلیل کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ فریادی کی فریاد سننا اپنی توہین سمجھتا ہے وکیل پیشی مانگے تو انکار نہیں کیا جا سکتا شاید انہیں یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ وکیل کی آواز تادیر کمرہ عدالت میں گونجتی رہے تو اس کے درو دیوار گر جائیں گے۔
ہم خاموشی سے بابا جی کی باتیں سنتے رہے کہ عدالت زدہ لوگ بہت حساس ہوتے ہیں عدالتی نظام کی حمایت میں ایک لفظ بھی سننے کے روا دار نہیں ہوتے۔ ان کے خیالات سے اختلاف کیا جائے تو بھڑک اٹھتے ہیں ان کے دل و دماغ میں اٹھنے والے جوار بھاٹا سے بچنے کے لیے ہاں میں ہاں ملانا وقت کا تقاضا ہوتا ہے۔ جو لوگ وقت کے تقاضے پر توجہ نہیں دیتے اپنا وقار کھو دیتے ہیں۔
وطن عزیز کے عدالتی نظام کا المیہ بھی یہی ہے کہ وقت کے تقاضے پر وکلا کے تقاضے کو فوقیت دی جاتی ہے بار کونسل کے مطالبے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ جج اور جسٹس صاحبان وکالت کی سیڑھی پر چڑھ کر مسند ِ انصاف پر جلوہ فگن ہوتے ہیں۔ وہ وکلا کی قانونی موشگافیوں اور تاخیری حربوں سے اچھی طرح آشنا ہوتے ہیں۔ اور یہ شناسائی بار کونسل کے بوجھ تلے سسکتی رہتی ہے اور یہ سسکیاں فریادی کا مقسوم بنا دی جاتی ہیں، مگر کب تک…!؟
کبھی نہ کبھی عدلیہ کو اپنا وقار اور حرمت کا بھرم رکھنا ہو گا۔ قابل غور امر یہ ہے کہ وہ دن کب آئے گا۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا۔ شاید یہ کہنا مناسب ہوگا کہ آنے والی نسلیں اس نظام کو منہدم کرنے کی جسارت ضرور کریں گی۔
ہم نے بابا جی کو اسپتال کی بوریت سے بچنے کے لیے ایک شعری کتابچہ دیا تھا بابا جی نے بڑے ذوق شوق سے اس کا مطالعہ کیا۔ ہم ان کی خیرت پوچھ کر واپس آرہے تھے تو بابا جی نے کہا تم اکثر شعر سناتے رہتے ہو۔ آج دو چار شعر مجھ سے بھی سن لو… پہلا شعر وکلا کے بارے میں ہے۔
پابند ان کے فیصلوں کی ہیں عدالتیں
قانون صرف ان کے ارادے کا نام ہے
اور یہ دوسرا شعر عدالتوں کے بارے میں ہے۔
ہر قانون نے آ کر دیکھے میرے تن کے گھائو
میرے خون میں تیر رہی ہے ہر منصف کی نائو
اور ہم باباجی کے ذوق مطالعہ کی داد دیتے ہوئے واپس آگئے۔