آڈیو لیکس کا ہماری قوم سے کیا لینا دینا

439

آج کل ہر روز ایک نئی آڈیو سننے کو مل رہی ہے، ان آڈیو لیکس نے ہمارے وطن عزیز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے بڑے بڑے ہاؤسز کے بڑے بڑے لوگوں کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ ہمارے سب سے محفوظ و طاقت کے علمبردار مقامات کو ننگا کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ سوائے اس کے کہ چوروں کو پڑ گئے مور، چند اداروں کی کارکردگی، چند ہاؤسز کی سیکورٹی پر سوالیہ نشانات کے علاوہ ان آڈیو لیکس کا ہماری قوم سے کیا لینا دینا۔ اس سے پہلے بھی بہت سی آڈیو لیکس ہو چکی ہیں ان میں جسٹس قیوم اور شہباز شریف کی سر فہرست ہیں۔ ان سے ہم نے کیا درس لیا ہے؟ ہمارے ہاں تو سر عام اسمبلیوں میں کچھ تقاریر کی جاتی ہیں اور عدالتوں میں کچھ بیان، انتخابی جلسوں میں کیا وعدے ہوتے ہیں پھر ایوان اقتدار میں آ کر ان وعدوں کو کس طرح پس پشت ڈالا جاتا ہے، جب جی کرتا ہے کسی کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے جب دل چاہا ایوان اقتدار میں لا بٹھایا، تازہ بھینس کے دودھ والے بیانات کے باوجود ہم اقتدار کے ایوانوں کے مزے لوٹ سکتے ہیں، چور کو پکڑنے والے پنکھوں سے جھول کر جانیں دے جاتے ہیں اور چور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، یہاں ملاوٹ سے پاک حلال رزق کے لیے ہزاروں مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں حرام اور ناجائز طریقوں سے دولت کما کر ہر سال مکہ مدینہ حاضری دینے والے ہی معتبر ٹھیرتے ہیں۔ ججوں پر حملہ آور وزارت عظمیٰ کے منصب پر بیٹھتے ہیں اور ایمان دار افراد بزدل و ڈرپوک ہونے کے طعنے سہتے ہیں۔ سزا یافتہ اربوں کے ڈاکے ڈالنے والے ملزم لندن میں علاج کرواتے ہیں اور سائیکل چور جیلوں میں گل سڑ رہے ہوتے ہیں۔
یہاں برسر اقتدار لوگوں کو کپڑے پہنانے کے لیے جنرل رانی کو طلب کیا گیا ہم پر جوں تک نہ رینگی، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم سر عام کہتا رہا پیتا ہوں پر تھوڑی سی ہم واہ واہ کرتے رہے، یہاں شراب شہد بنتی رہی ہم نے کیا سبق لیا؟ جو اب اس آڈیو لیکس سے لے لیں گے۔ وکی لیکس میں نام آنے پر کون سا ہماری قوم نے کوئی اثر لیا تھا جو اب ان آڈیو لیکس کا ہم پر کوئی اثر ہو گا۔ اخلاقیات سے دیوالیہ قوموں پر ان چیزوں کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ ان لیکس کا اثر وہاں ہوتا ہے جہاں قومیں غفلت کی نیندیں سو نہیں رہی ہوتیں، جن کی غیرت و حمیت مر نہیں گئی ہوتی، جو جذبات کی لہروں میں بہہ کر نہیں جیتیں۔ جہاں بغیر سوچے سمجھے ان پڑھ مولویوں کے کہنے پر نا حق کفر کے فتوے لگا کر مار نہیں دیا جاتا آگ میں جلا نہیں دیا جاتا۔
جن معاشروں میں زنا تک کی آزادی ہونے کے باوجود دنیا کے طاقتور صدر ملک کو اپنی اسٹاف سے بوس کنار پر سر عام معافی صرف اور صرف اخلاقی دباؤ کی وجہ سے مانگنی پڑتی ہے۔ جہاں عوام پر چار لوگوں کے اکٹھ پر پابندی لگا کر اگر وزیراعظم خود چار لوگوں کی اکٹھے میٹنگ کر لے تو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑ جاتے ہیں۔ جہاں امیر غریب کے لیے ایک قانون ہے۔ جہاں سب برابر ہیں اور قانون کے تابع ہیں۔ ہاں البتہ ان آڈیو ویڈیو لیکس سے چار دن ٹی چینلوں اور سوشل میڈیا پر رونق لگی رہے گی۔ جو جتنا بڑا چور اتنا بڑا لیڈر ٹھیرے گا۔ کل کا بدمعاش ڈاکو آج کا ہیرو ہو گا ایوان اقتدار کے مزے لوٹے گا یا پھر ولایت میں عیاشی کرے گا۔
ہمارے اخلاق دیوالیہ نکل چکا ہے ہمیں اپنے اخلاق ٹھیک کرنے ہوں گے نسلی مسلمان کے بجائے عملی مسلمان بننا ہو گا۔ خوف خدا اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا۔ جب تک اخلاقی قوت سے نا آشنا رہیں گے ان آڈیو لیکس کا ہم پر کوئی اثر ہونے والا نہیں۔ اللہ سے ڈرنے والا بننا ہو گا پھر جا کر کہیں بات بنے گی پھر نہ کبھی کرپشن کر سکیں گے، نہ چوروں سے حلف لیں گے، اور نہ راز لیک ہوں گے۔ احساس جواب دہی چاہے اللہ کے حضور چاہے عوام کے آگے پیشی کا ہو تب جا کر کہیں ان لیکس کا ڈر خوف ہو گا۔