مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی بریت

472

عدالت عالیہ اسلام آباد نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی صاحبزادی مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دے دیں اور دونوں کو بری کر دیا اس عدالتی حکم کے ساتھ ہی مریم نواز کی نا اہلی بھی ختم ہو گئی ہے۔ جمعرات کے روز جب عدالت عالیہ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سنائی گئی سزائوں کے خلاف بریت کی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت میں موجود تھے جب کہ استغاثہ کے وکیل یعنی نیب کے پراسیکیوٹر عثمان جی راشد کمرہ عدالت سے غیر حاضر تھے عدالت کے استفسار پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے بتایا کہ وہ ’’ناسازی طبع‘‘ کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے، اگر عدالت اجازت دے تو میں دلائل دیتا ہوں، جس پر ملزمان کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ سردار صاحب! آپ سے اچھے دلائل کوئی اور نہیں دے سکتا چنانچہ سردار مظفر نے کیس کا ریکارڈ پڑھنا شروع کر دیا جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سردار صاحب ! آپ یہ سارا پڑھیں گے؟ آپ صرف کیس سے متعلقہ چیزیں پڑھیں۔ بہرحال اس طرح کیس کی کارروائی شروع ہوئی اور اسی طرح آگے بڑھتی چلی گئی، طویل سماعت اور دلائل کی تکمیل کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور پندرہ منٹ بعد مختصر فیصلہ عدالت عالیہ کی جانب سے سنا دیا گیا اور مختصر تحریری حکم نامہ جاری بھی کر دیا گیا۔عدالت تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرے گی جس میں فیصلہ کی وجوہ بھی شامل کی جائیں گی۔احتساب عدالت نے مریم نواز کو مجموعی طور پر آٹھ سال اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید اور نا اہلی کی سزا دی تھی جس کے خلاف عدالت عالیہ اسلام آباد نے بریت کی درخواست کی چار سال تک سماعت کی اور آخر اپنا فیصلہ صادر کر دیا۔ سماعت کے آخری روز کی کارروائی کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ دوران سماعت ’’میاں بیوی راضی، کیا کرے گا قاضی‘‘ والی کیفیت رہی۔ نیب کے پراسیکیوٹر عثمان جی راشد ’’ناسازی طبع‘‘ کی بناء پر عدالت میں پیش ہی نہیں ہوئے جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے ملزمان کے وکیل کی خوشنودی سے دلائل پیش کئے اور عدالت عالیہ کو اسی پر گزارا کرتے ہوئے فیصلہ سنانا پڑا۔ ان دلائل کا معاملہ ’’دل ہی نا چاہتا ہو تو دعا میں اثر کہاں؟‘‘ سے مختلف نہیں تھا دراصل یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی اور راز نہیں رہی کہ ہمارے یہاں قانون موم کی ناک سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا جسے مختلف حالات اور واقعات میں حسب ضرورت جدھر چاہے موڑ لیا جاتا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب اسی معاملہ کی سماعت کے دوران ملک کی اعلیٰ ترین عدالت عظمیٰ نے ’’شریف خاندان‘‘ کے خلاف فیصلہ سنائے جانے کے وقت اسے ’’سسلین مافیا‘‘ قرار دیا تھا مگر اب وہ بے گناہ ٹھہرا ہے اور عدالت عالیہ نے میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور داماد کو با عزت بری کر دیا ہے، ظاہر ہے اپنی ہی جماعت سے ہمدردیاں رکھنے والے جس سابق بیورو کریٹ کو وزیر اعظم شہباز شریف نیب کا چیئرمین لگائیں گے اس کی سربراہی میں نیب جیسے ادارے سے کیوں کر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ’شریف خاندان‘ کی شرافت پر کوئی دھبہ لگانے، انہیں مجرم ثابت کرنے اور سزائیں دلوانے میں کوئی دلچسپی لے گا۔ عدالتوں سے مفرور قرار پانے والے محترم اسحاق ڈار صاحب بھی قبل ازیں اپنی مفروری کا حکم عدالت ہی سے معطل کروانے کے بعد پاکستان تشریف لا کر سینٹ کے رکن اور ملک کے وزیر خزانہ کے طور پر حلف اٹھا کر فرائض منصبی بھی سنبھال چکے ہیں دختر نیک اختر اور داماد کی بریت کا فیصلہ عدالت عالیہ اسلام آباد کی جانب سے سنائے جانے کے بعد سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے بھی پاکستان واپسی کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ وہ جو شدید بیماری کا ڈرامہ رچا کر اور بڑی مشکلوں اور سفارشوں سے پاکستان سے لندن تشریف لے گئے تھے اب ان کا کہنا ہے کہ بیرون ملک ایک ایک دن ان پر بھاری گزر رہا ہے اور وہ علاج کروائے بغیر ہی جلد پاکستان آنا چاہتے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنے وکلا کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ ان کی وطن واپسی کا راستہ ہموار کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کریں۔ ان کو بھی اسی ایون فیلڈ ریفرنس میں قید، نا اہلی اور جرمانہ کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ جس میں ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر با عزت بری ہو گئے ہیں تاہم نواز شریف کو ہدایت کی گئی تھی کہ پہلے وہ عدالت میں پیش ہوں تب ان کی درخواست پر فیصلہ کیا جائے گا۔ اب امید کی جا رہی ہے کہ جلد ان کی جانب سے راہداری ضمانت کی درخواست دائر کی جائے گی جس کی منظوری کے بعد وہ وطن واپس آ کر جیل میں جائے بغیر عدالتی کارروائی کا حصہ بنیں گے اور بیٹی اور داماد کی طرح پاکستان کے شفاف نظام انصاف کی برکت سے نہ صرف با عزت بری قرار پائیں گے بلکہ ملکی سیاست میں حصہ لینے کے بھی اہل ہو جائیں گے اور پھر قسمت نے یاوری کی تو چوتھی بار ملک کی وزارت عظمیٰ کا منصب بھی ان کا منتظر ہے…!!!