جمہوریت اور اس کو لاحق خطرات

855

اقبال نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ جمہوریت کا مذاق اُڑایا ہے۔ مثلاً ایک جگہ انہوں نے فرمایا ہے۔
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اس شعر میں اقبال جمہوریت پر اعتراض کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت ’’معیاری‘‘ نہیں ہے۔ ’’مقداری‘‘ ہے۔ اس نظام میں امام غزالی کا بھی ایک ووٹ ہوتا اور میاں نواز شریف کا بھی۔ حالاں کہ امام غزالی پوری امت کے امام ہیں اور نواز شریف ایک بدعنوان شخص۔ ظاہر ہے کہ جو نظام معیار میں مقدار کو فوقیت دے وہ اسلامی کیا انسانی کہلانے کا بھی مستحق نہیں ہوسکتا۔ اپنے ایک شعر میں اقبال نے جمہوریت کو ’’تماشا‘‘ قرار دیا ہے۔ اقبال نے فرمایا ہے۔
جلالِ پادشاہی ہو کے جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
تماشا بندر کا بھی ہوتا ہے اور سانپ کا بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کہیں جمہوریت بندر کا تماشا ہے اور کہیں سانپ کا۔ سانپ کے تماشے سے سلیم احمد کا معرکہ آرا شعر یاد آیا۔ انہوں نے کہا ہے۔
میرے پاس آتے ہیں مجھ سے خوف کھاتے ہیں
میں ہجومِ طفلاں میں سانپ کا تماشا ہوں
مسلم دنیا کو دیکھا جائے تو یہاں جمہوریت واقعتا بچوں کے ہجوم میں سانپ کا تماشا بنی ہوئی ہے۔ جمہوریت پر ہماری رال بھی ٹپکتی ہے اور جمہوریت سے مسلم دنیا کا حکمران طبقہ خوف بھی بہت کھاتا ہے۔ خاص طور پر جرنیل، پادشاہ اور سیاسی خاندان جیسے شریف خاندان اور بھٹو خاندان۔ تاہم ان حقائق کے باوجود جمہوریت پوری دنیا میں ایک مذہب کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک سیاسی مذہب کا۔ جس طرح مذہب سے ایک تقدیس وابستہ ہے۔ اس طرح جمہوریت کے ساتھ بھی ایک تقدس وابستہ ہے۔ امریکا کے آنجہانی سینیٹر جان مکین نے تو ایک بار کہا تھا کہ دنیا کو دو خانوں میں بانٹنے کی ضرورت ہے۔ ایک جمہوری دنیا اور دوسری غیر جمہوری دنیا۔ جمہوری دنیا ایک وحدت ہے اور غیر جمہوری دنیا بھی ایک وحدت ہے البتہ جمہوری دنیا ایک جنت ہے اور غیر جمہوری دنیا ایک جہنم۔
پاکستان میں جمہوریت کا حال پتلا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے 57 فی صد لوگ جمہوریت کو دوسرے سیاسی نظاموں پر فوقیت دیتے ہیں۔ اگرچہ اس سلسلے میں اعداد و شمار اُتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں مگر گزشتہ ایک دہائی میں کبھی بھی جمہوریت کی حمایت 50 فی صد سے کم نہیں ہوئی۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 80 فی صد لوگ جمہوریت کو پاکستان کے لیے اہم سمجھتے ہیں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمہوریت سے بڑے بڑے فوائد وابستہ دیکھتی ہے۔ 2022ء کے ایک سروے کے مطابق 88 فی صد لوگوں کا خیال ہے کہ جمہوریت میں اظہار کی آزادی ہوتی ہے۔ 79 فی صد لوگوں کا خیال ہے کہ انتخابات کم و بیش منصفانہ ہوتے ہیں۔ 74 فی صد لوگوں کا خیال ہے کہ جمہوریت میں تمام طبقات کو مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ 2010ء میں 46 فی صد پاکستانیوں کا خیال تھا کہ صرف سول لوگوں کو حکمرانی کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ 2018ء میں 70 فی صد لوگوں نے سول بالادستی کے حق میں رائے دی تھی۔ 2022ء کے ایک سروے کے مطابق 60 فی صد لوگ سیاسی نظام میں سول بالادستی کے حق میں ہیں۔ اعدادو شمار سے ثابت ہورہا ہے کہ انتخابات میں رائے دہندگی کی شرح بڑھ رہی ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں رائے دہندگی کی شرح 50 فی صد تھی جو گزشتہ انتخابات میں رائے دہندگی کی شرح سے کہیں زیادہ بلند تھی۔ 1997ء کے انتخابات میں رائے دہندگی کی شرح صرف 37 فی صد تھی جو 2013ء کے انتخابات میں بڑھ کر 53 فی صد ہوگئی۔ بلاشبہ ہمارے جمہوری اداروں کی کارکردگی افسوس ناک ہے مگر لوگوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جمہوریت دیگر سیاسی نظاموں سے بہرحال بہتر ہے۔ (دی نیوز۔ 20 ستمبر 2022ء)
ان حقائق کے باوجود جمہوریت کو صرف پاکستان میں نہیں عالمی سطح پر کئی خطرات کا سامنا ہے۔ گیلپ کے ایک سروے کے مطابق مغربی یورپ اور شمالی امریکا سمیت دنیا کے 50 ممالک میں یہ خیال عام ہے کہ جمہوریت عوامی خواہشات کے مطابق کام نہیں کررہی۔ کہیں فوج عوامی خواہشات کو کچل رہی ہے۔ کہیں جوڈیشل مارشل لا اپنا کام دکھا رہا ہے۔ کہیں اقتصادی جبر اپنا کھیل کھیل رہا ہے۔ دنیا میں populism کی لہر جمہوریت کی کمزوری کا ایک مظہر ہے۔ پاپولزم کا ایک مظہر امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کا عروج تھا۔ ٹرمپ اگرچہ ووٹوں کی قوت ہی سے اقتدار میں آئے تھے مگر وہ ایک سیاسی جماعت سے زیادہ ایک Cult یا ایک فرقے کی علامت تھے۔ امریکا میں لاکھوں لوگ تھے جو ٹرمپ کے لیے کچھ بھی کرنے پر آمادہ تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو کبھی بھی کیپٹل ہلز پر حملہ نہ ہوتا۔ اگرچہ ٹرمپ کو اقتدار سے باہر ہوئے عرصہ ہوگیا ہے مگر ان کے حوالے سے فرقے کی نفسیات یا Cult Mentality اپنی جگہ موجود ہے۔ آج بھی کروڑوں امریکی سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کو دوبارہ اقتدار میں آنا چاہیے۔ پاکستان میں عمران خان بھی ایک فرقے یا Cult کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اگر عمران نہیں تو ہر طرف اندھریا ہی اندھیرا ہے۔
یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ مغرب میں ’’جمہوریت کارپوریٹ ڈیموکریسی‘‘ بن چکی ہے۔ اس جمہوریت کی پشت پر سرمایہ کھڑا ہے۔ چناں چہ امریکا میں یا یورپ ہر جگہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پالیسی ساز بن کر کھڑی ہوئی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ امریکا کو سی آئی اے اور پنٹاگون چلاتے ہیں۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سی آئی اے اور پنٹا گون کی پشت پر بھی سرمایہ دار ہی موجود ہوتے ہیں۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے۔ اس لیے کہ بھارت کی آبادی اب ایک ارب 40 کروڑ ہے مگر بھارت کی جمہوریت کئی اعتبار سے شرمناک ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بھارت میں ہندوئوں کی پوری سیاسی طاقت مسلمان دشمنی سے عبارت ہے مگر 1992ء میں صرف بابری مسجد انتہا پسند ہندوئوں کے نشانے پر تھی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بھارت کی ہر مسجد انتہا پسندوں کے نشانے پر ہے۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو جس مسجد کے بارے میں چاہتے ہیں کہہ دیتے ہیں کہ یہاں کبھی مندر تھا۔ اس سلسلے میں انہیں دعوے کو ثابت کرنے کے لیے شواہد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کا دعویٰ ہی بجائے خود مسجد کے مندر ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔ ہندو انتہا پسند Love Jihad کے عنوان سے ایک بھرپور تحریک چلائے ہوئے ہیں۔ انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ Love Jihad کے تحت مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر انہیں مسلمان بنارہے ہیں۔ یہ دعویٰ ایک سفید جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہندو لڑکیوں کی معاشی اور سماجی حالت اکثر مسلمان لڑکوں سے ہزار گنا بہتر ہوتی ہے۔ چناں چہ وہ آسانی کے ساتھ کسی مسلمان لڑکے کی محبت میں گرفتار نہیں ہوسکتیں مگر انتہا پسند ہندوئوں کا پروپیگنڈا اتنا پھیلا ہوا ہے کہ کوئی مسلمانوں کے موقف کو سننے کا بھی روادار نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کی جمہوریت اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر کھڑی ہوئی ہے۔ اس دشمنی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان آبادی کا 25 فی صد ہیں مگر منتخب ایوانوں میں ان کی نمائندگی 4 فی صد سے زیادہ نہیں۔ بھارت کی جمہوریت اس لیے بھی انتہائی ناقص ہے کہ اس وقت بھارت کے منتخب ایوانوں میں 30 فی صد ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جو قتل، زنا بالجبر، اغوا اور بدعنوانی جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے لاحق ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے بھٹو کو پیدا کیا۔ نواز شریف کو خلق کیا۔ عمران خان کو ایجاد کیا۔ الطاف حسین کو الطاف حسین بنایا۔ پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت بھی ایسی نہیں جس میں اسٹیبلشمنٹ جڑیں نہ رکھتی ہو۔ انتخابات ہوتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اقتدار میں بے نظیر بھٹو ہوں یا نواز شریف یا عمران خان خارجہ اور داخلہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ بناتی ہے۔ عمران خان اسد عمر کی صورت میں اپنا وزیر خزانہ لائے تھے مگر اسٹیبلشمنٹ نے انہیں قبول نہ کیا۔
چناں چہ انہیں تبدیل کردیا گیا اور ان کی جگہ اسٹیبلشمنٹ کے امیدوار نے لے لی۔ اس امر پر بھی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ حکومت بنتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے، گرتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی جمہوریت ایک تماشے کے سوا کچھ نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کو سنجیدگی سے چیلنج کرنے کے لیے تیار نہیں۔ میاں نواز شریف نے مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو کے عنوان سے تحریک چلائی مگر آج وہ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے اقتدار سے باہر ہو کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بہت شور مچایا مگر ان کا شور اسٹیبلشمنٹ کو گرانے کے لیے نہیں اسے اپنی طرف مائل کرنے کے لیے ہے۔
پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی جمہوریت کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ میاں نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کیا مگر وہ خود اپنی پارٹی کے اندر انتخابات کراکے ووٹ کو عزت دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کبھی میاں صاحب ملک کے وزیراعظم تھے آج ان کا چھوٹا بھائی وزیراعظم ہے۔ وہ نہیں ہوگا تو میاں صاحب مریم نواز کو وزیراعظم بنوانے کی کوشش کریں گے۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ یہی حال بھٹو خاندان کا ہے۔ بھٹو جب تک زندہ تھے وہی پیپلز پارٹی تھے۔ وہ نہ رہے تو ان کی جگہ بے نظیر بھٹو نے لے لی۔ وہ دنیا میں نہ رہیں تو ان کے شوہر آصف زرداری آگے آگئے۔ اب بلاول پارٹی پر قابض ہیں۔ یہ جمہوریت دشمنی کی انتہا ہے۔