عیاں اور عریاں

578

سیلاب کی تباہ کاریوں نے بہت کچھ عیاں اور عریاں کردیا ہے۔ ایک طرف ساڑھے تین کروڑ عوام ہیں جن کا سب کچھ برباد ہو چکا ہے دوسری طرف حکمران طبقے کا عوام دشمن کردار، لوٹ مار اور آپس کی نمائشی لڑائیاں ہیں کسی صورت جنہیں قرار نہیں ہے۔ سیلاب کی قیامت سے بیماریوں، بھوک، پیاس، تعفن، مچھروں اور چار دیواری کے خاتمے کی قیامت تک کروڑوں افراد کی نگاہیں آسمان کی سمت مرکوز اپنے اللہ کی رحمت کی منتظر ہیں کیونکہ اس مصیبت میں ان کے حکمرانوں نے تو انہیں مرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ عوام کے دکھ درد میں حقیقی اور عملی طور پر شرکت کا کوئی تصور ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب کے باوجود جس میں کروڑوں عوام متاثر ہوئے ہیں ان کی پُرتعیش زندگیوں اور لائف اسٹائل میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ حکمرانوں کے عالی شان محلات، لگژری گاڑیوں کے قافلوں اور اربوں روپے کی فضول خرچیوں اور اللے تللوں میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ بات کہنے کی نہیں ہے لیکن اگر دفاعی بجٹ میں بھی سیلاب زدگان کے باب میں کچھ کٹوتی کردی جاتی تو بھارت پاکستان فتح نہ کر لیتا جسے اس کے اپنے جر نیلوں اور ججوں نے پہلے ہی فتح کررکھا ہے۔ رائے ونڈ کے محلات ہوں، بنی گالہ کا پہاڑی قلعہ ہو یا پھر زرداری ہائوسز کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے سلسلے، ہر طرف عیش ہی عیش، آرام ہی آرام ہے۔ متاثرہ افراد کے لیے حکمران طبقے میں سے کسی کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں سوائے پُر فریب جھوٹے وعدوں کے جو مہنگائی، بے روزگاری اور قلیل تر ہوتی آمدنیوں میں روز مر رہے ہیں۔ اہل ثروت اور مالدار طبقے کا کردار بھی اس دوران بہت شرمناک اور ایک علٰیحدہ قوم کا رہا جس کا ملک وقوم اور عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس ملک میں ارب پتیوں کی کوئی کمی نہیں۔ اگر ان میں سے ہر ایک اپنی بے کراں دولت میں سے دوچار ارب روبے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے نکال دے تو ان کی دولت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تمام ارب پتیوں کو چھوڑیے محض آٹھ دس ٹاپ ٹین ارب پتی ہی سیلاب زدگان کے دکھوں کا مداوا کرسکتے ہیں لیکن سب پر وہ بے حسی طاری ہے کہ جائے عبرت ہے۔
پٹرول، گیس اور اشیاء ضرورت کی روزمرہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی قیمتوں نے لوگوں کے روزو شب میں انگارے بھر دیے ہیں۔ لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ دوتین بلبوں اور پنکھوں کے استعمال پر دس بارہ پندرہ ہزار کے بجلی کے بل بھریں یا گھر کا کرایہ دیں اور پھر پچیس تیس ہزار کی آمدنی میں سے باقی ماندہ رقم میں کس طرح گھر کے پانچ چھے افراد کا مہینہ بھر روٹی، کپڑے، بیماریوں اور دیگر ضروریات کا مداوا کریں۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کا شور کر کے تمام معاشی بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے جب کہ اسی دوراں ملک کے سرمایہ داروں کے منافعوں اور جائدادوں میں اضافہ ہوا ہے۔ معاشی بوجھ کو ہلکا کرنے میں انہیں کوئی کردار تفویض کرنا کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہے۔ حکمران طبقہ اس وقت بھی اقتدار کے حصول کی جنگ میں یوں مصروف ہے جیسے کتے ہڈی پر جھپٹتے ہیں۔ اپوزیشن ہو یا حکومت ججوں اور جرنیلوں کے اکٹھ کی چاکری ہی میں اگر ایک طرف نجات سمجھتا ہے تو دوسری طرف ان سے بدترین نالاں اور بدظن بھی ہے۔
شہباز گل کی گرفتاری، عمران خان کی خاتون جج کو دھمکی، ان پر توہین عدالت کے مقدمات، عدالتوں میں پیشیاں، جلسے، لانگ مارچ کے دعوے اور التوا حکومتی جماعتوں کے مقدمات کا خا تمہ، اسحاق ڈار کی وطن واپسی کے نان ایشوز جن کا عوام کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں حکومت، اپوزیشن اور سیاسی جماعتوں کی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ حکومت کے خاتمے کے بعد جرنیلوں پر کڑی تنقید اب اس ملک کی روایت بنتی جارہی ہے جو کچھ ایسی غیر منصفانہ بھی نہیں۔ اس کے جواب میں غداری کے مقدمات بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاست دانوں کے لیے روایت رہے ہیں۔ نوازشریف جب حکومت سے نکالے گئے تھے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید ان کا وظیفہ تھی حالات کے مطابق جس میں کمی یا تیزی آتی رہی۔ اس وقت بھی لاہور کے ایک تھانے میں ان پر اور ن لیگ کی دیگر قیادت پر غداری کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اقتدار کے خاتمے کے بعد عمران خان نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے باب میں کچھ زیادہ ہی تندی کا مظاہرہ کیا اور جرنیلوں کو میر جعفر، میر صادق، امریکن ایجنٹ، غدار، نیوٹرل، جانور اور نجانے کیا کچھ کہا۔ انہوں نے اس مہم کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنادیا۔ سیلاب کی بدترین صورتحال کے باوجود وہ طاقت کے بگولے کی طرح پورے ملک میں چکراتے رہے لیکن تیز رفتار اور پُرشور جلسوں میں عوامی طاقت کے مظاہروں کے باوجود وہ اپنا کوئی بڑا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ حسب روایت وہ بھی غداری اور نااہلی کے مقدمات کی زد میں ہیں۔ نواز شریف کی طرح انہیں بھی بالآخر اسٹیبلشمنٹ کی طرف نرمی کے برتائو کی طرف آنا پڑا۔ صدر عارف علوی نے گزشتہ دنوں تسلیم کیا تھا کہ مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مفاہمت کے لیے بات چیت جاری ہے تاکہ اس سیاسی جمود کا خاتمہ کیا جاسکے جو ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ صدر عارف علوی کی ان کوششوں سے عمران خان با خبر نہ ہوں یا عارف علوی نے یہ کوششیں انہیں علٰیحدہ رکھ کر کی ہوں۔ جلد ازجلد الیکشن اور ان کی تائید اور مرضی سے نئے آرمی چیف کا انتخاب عمران خان کی تمام تر کوششوں اور سیاست کا مرکزو محور ہے۔ جب کہ شہباز حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایک منتخب اور آئینی حکومت ہے جو اپنی مدت پوری کرے گی۔
اس دوران جرنیلوں کا کردار بھی روایت کے عین مطابق رہا۔ وہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، بینکاروں اور اشرافیہ کی سرپرستی کرنے کے ساتھ ساتھ کبھی حکومت اور کبھی اپوزیشن کی سرپرستی کرتے رہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے آخری مرحلے میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ براہ راست ملک پر قبضے کا سوچ رہے تھے لیکن بارہ بجے عدالتیں کھول کر اس سوچ پر بند باندھ دیے گئے۔ اعلیٰ عدلیہ کا کردار بھی اس عرصے میں مخفی نہیں رہا۔ ثابت ہوگیا کہ کوئی یہ امید نہ رکھے کہ ہماری عدالتوں سے ایک جیسے مقدمات میں ایک ہی جیسا رویہ اور فیصلے سامنے آئیں گے۔ قانون اور آئین کے بجائے یہاں حقیقی حکمرانوں کے اشاروں، ان کی تائید اور مفادات کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرح اعلیٰ عدلیہ بھی عمران خان کے دبائو میں آگئی حتی کہ الیکشن کمیشن بھی لیکن اس ملک میں عوام کے دبائو میں کوئی نہیں۔ سیلاب کے دوران ہمارے محترم جج صاحبان اور وکلا برداری کی طرف سے ریلیف کا کوئی چھوٹا بڑا اعلان اور کوشش نظر نہیں آئی۔
اس تمام شورا شوری میں عوام کا کردار تو کجا نام بھی کہیں سا منے نہیں آتا۔ چار چھے افراد ہیں جن کے عزائم، جذبات اور فیصلے ملک کو چلارہے ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا ایشو سیلاب سے متاثرہ ساڑھے تین کروڑ بھوکے اور بدحال عوام نہیں اگلے آرمی چیف کی تعیناتی ہے۔ اس ملک کے پچیس کروڑ عوام کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے جن کے نام پر سب اپنے اپنے مفاد حاصل کررہے ہیں۔ حالیہ سیلاب اور اس کا پانی تو کبھی نہ کبھی خشک ہو ہی جائے گا لیکن ان حکمرانوں کی موجودگی میں اس ملک کا قرض اور عوام کی مایوسی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ ایک بے بسی ہے ہمہ وقت جس کا نزول جاری ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ داروں کی حکومت ہے جج، جرنیل اور سیاست دان جن کے محافظ ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اقتدار ان ہی طبقات کے گرد گھومتا رہے۔ کوئی جج جرنیل سرمایہ دار اور سیاست دان اس ملک میں عوام کا دوست نہیں ہے خواہ وہ سیلاب جیسی آفت سے ہی نبرد آزما ہوں۔ ملک دیوالیہ ہورہا ہو یا ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کی زد میں ہو یہ حکمران طبقہ اپنی مراعات سے ایک لمحے کے لیے بھی دست بردار ہونے پر تیار ہے اور نہ عوام کو کچھ دینے پر۔ سب عیاں اور عریاں ہو چکے ہیں لیکن کسی کو شرم ہے اور نہ غیرت۔