روس افغانستان معاہدہ

635

افغانستان میں امارت اسلامیہ یعنی طالبان کی حکومت اور روس کے درمیان پٹرول، گندم اور گیس کی خریداری کے لیے باقاعدہ معاہدہ ہوگیا ہے۔ افغانستان کی آزادی اور دوحا معاہدے کے مطابق مکمل امریکی فوجی انخلا کے بعد طالبان حکومت کا پہلا بین الاقوامی تجارتی معاہدہ ہے۔ امریکا اور عالمی مبصرین کا خیال تھا کہ امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا، لیکن نصرت الٰہی سے افغان طالبان نے پرامن طور پر دارالحکومت کابل سمیت پورے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا۔ امریکا کی تیار کردہ فوج تحلیل ہوگئی، اس تاریخی اور انقلابی واقعے کے بعد بھی افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف امریکا کی منفی سرگرمیاں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ امریکا نے تو دوحا معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جب کہ طالبان نے کیے ہوئے اپنے تمام وعدے پورے کیے ہیں۔ امریکا نے ایک معاہدے کے تحت افغانستان سے فوجی انخلا کیا ہے۔ یہ معاہدہ امارت اسلامیہ افغانستان سے کیا گیا ہے، لیکن آج تک امریکا نے افغانستان کی موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ امریکا ہی کی وجہ سے اقوام متحدہ نے افغانستان کی نشست خالی رکھی ہوئی ہے جیسے پوری دنیا افغانستان کے داخلی انتشار اور بحران کے پیدا ہونے کی منتظر ہو۔ دنیا کے تمام ممالک کی حکومتیں افغانستان کی طالبان حکومت سے سفارتی رابطہ قائم کررہی ہیں، لیکن انہیں تسلیم نہیں کررہیں، یہاں تک کہ بھارت نے بھی افغانستان سے سفارتی رابطہ بحال کرلیا ہے۔ جب کہ روس اور چین کے بھی رابطے ہیں۔ روس سے پٹرول، گندم اور گیس کی خریداری کا معاہدہ اہم پیش رفت ہے۔ اگر خطے میں امن برقرار رکھنا ہے تو عالمی اور علاقائی طاقتوں کو افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف منفی سرگرمیاں ترک کرنی ہوں گی۔ سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے یہ خطہ بہت اہم ہے اور اس خطے میں افغانستان کی اہمیت یہ ہے کہ کئی اہم ملکوں سے اس کی سرحدیں جڑی ہوئی ہیں۔ افغانستان کا نظام حکومت کیا ہوگا، اسے افغانوں پر چھوڑ دیا جائے۔ انہوں نے اس سے قبل سوویت یونین اور امریکا کے احکامات نہیں مانے جو تاریخ کی غیر معمولی طاقتیں تھیں۔ پہلا قدم یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے اور اس کے منجمد اثاثے واپس کیے جائیں۔