نیا تماشا۔ آڈیو لیکس

612

پورے میڈیا میں ہنگامہ اُٹھا ہوا ہے کہ وزیراعظم ہائوس سے آڈیو لیک ہوگئی۔ حکمران ملک میں پیسہ بنانے کے لیے اقتدار میں آتے ہیں اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایسی سیکڑوں آڈیوز بھی آجائیں ایک لفظ بھی غلط نہیں ملے گا جس پر ہمیں شرمندگی ہو۔ وزیراعظم ہائوس سے آڈیو لیکس پاکستان میں کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے۔ گزشتہ دو ادوار تو ایسے ہی گزرے ہیں جن میں اہم لوگوں کی آڈیو لیک ہوگئی۔ لیکن ایک سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا وزیراعظم ہائوس میں ہونے والی گفتگو کوئی ریکارڈ کررہا ہے۔ کیا وہاں کوئی آلہ فٹ ہے؟ حکمران اسے خفیہ اداروں کی شرارت سمجھتے ہیں لیکن وہ تو کبھی یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ ایسا کرتے ہیں اگر یہ مان لیا جائے تو معاملہ اور بھی سنگین ہے کہ پھر جو بھی آڈیو ریکارڈ اور لیک کرتا ہے وہ یہ آڈیوز فروخت کے لیے ویب سائٹ پر ڈال دیتا ہے۔ یہ سوال مزید سنگین ہے کہ اگر پاکستانی ایجنسیاں آڈیو ریکارڈ اور لیک نہیں کررہی ہیں تو کون کررہا ہے۔ جہاں تک آڈیو کے مواد کا تعلق ہے تو پاکستانی حکمران علانیہ اس سے بھی زیادہ غیر محتاط گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی جلسہ عام میں گالی، قومی اسمبلی میں خاتون رکن اسمبلی کے فحش اشارے، جنرل پرویز مشرف کی رنگین زندگی، ان کے وزیرخارجہ کا اسرائیل کے لیے وکالت کرنا، کشمیر سے دستبرداری وغیرہ، عمران خان کا قادیانیوں کو مشیر بنانا اور اس پر اصرار کہ کوئی غلط کام نہیں کیا۔ شریف خاندان کا بھارت سے تجارتی تعلقات رکھنا اور مرے جانا کہ کسی طرح وہاں سے گھاس ڈال دی جائے اور اب پوری پی ڈی ایم اس سطح پر آگئی ہے کہ آئی ایم ایف کے ہاتھوں ملک گروی رکھنے پر بھی علی الاعلان تیار ہے۔ آئی ایم ایف کے سب مخالف ہیں لیکن سب سے پہلے اس کے پاس دوڑتے ہیں۔ اس آڈیو میں جو کچھ بھی ہو وہ قانون کی گرفت میں آنے والا نہیں اس کا صرف ایک مقصد ہے کہ جس طرح پی ٹی آئی کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے اسی طرح پی ڈی ایم کے سر پر بھی تلوار لٹکا کر رکھی جائے۔ اب اس معاملے میں دونوں برابر ہیں۔ جو لوگ آڈیو لیک کرتے ہیں ان کے کچھ مطالبات بھی ہوتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ مطالبات بھی سامنے آجائیں گے۔ یہ مطالبات محض مطالبات کی شکل میں نہیں آئیں گے فیصلوں کی شکل میں آئیں گے۔ جہاں تک آڈیو پر حکومتی موقف کا تعلق ہے تو رانا ثنا صاحب تو بڑے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں اور ان کی ساری توپوں کا رخ پی ٹی آئی رہنما عمران خان کی طرف ہوگیا ہے۔ اب ذرا آڈیو لیکس کا وقت ملاحظہ فرمائیں۔ عین اس روز جب وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کے استعفے کا اعلان اور اسحق ڈار کے وزیر بننے کی خبریں شائع ہوئیں۔ اس روز آڈیو لیک ہوگئی۔ کیا ان دونوں کا بھی آپس میں کوئی تعلق ہے پھر انتہائی اہم دفاعی شخصیت کی آڈیو لیک ہونا بھی باعث تشویش ہے۔ یہ جو رانا ثنا نے فرمایا کہ آج کل فون ہیک کرنا اور ریکارڈ کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کوئی بھی کرسکتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کوئی بھی کرسکتا ہے بلکہ کیوں کی گئی ہے۔ ویسے یہ کام ہر کوئی نہیں کرسکتا کسی نے محض شغل کے لیے تو آڈیو ریکارڈنگ نہیں کی ہوگی۔ رانا صاحب اس طرح یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کسی سرکاری ادارے یا ایجنسی نے ایسا نہیں کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایجنسیاں حکومت کی ہوتی ہیں یا حکومت ایجنسیوں کی… وہ جس کا چاہے فون سن لیں اور جس کا چاہیں ریکارڈ کرلیں۔ یہ عام لوگوں کا کام نہیں ہے کسی ریاستی ادارے کا اس میں ملوث ہونا یقینی ہے۔ آج پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کم از کم اس امر پر تو متفق ہوگئے ہوں گے کہ ایجنسیوں اور خفیہ اداروں کو سیاسی معاملات میں زیادہ دخیل نہ ہونے دیا جائے، وہ اس معاملے میں تو ایک پیج پر آگئے ہیں۔ دوسرا اتفاق صدر مملکت کا آرمی چیف کے معاملے پر اتفاق رائے پر زور دینا ہے۔ کیا یہ بیان بھی محض اتفاقیہ تھا۔ اگر اسے لوگ سازشی تھیوری نہ کہیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سارے کام مقتدر ادارے خود کرتے ہیں تا کہ سیاستدانوں کو دبائو میں رکھا جاسکے۔ اور یہ حقیقت لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ملک میں ایسی سازشی تھیوری بارہا بروئے کار لائی گئی ہے۔ اب میڈیا کو نیا تماشا ہاتھ آگیا ہے، سارا دن ساری رات قوم اس بحث میں اُلجھی رہے گی۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر انکشاف بڑے لوگوں کے خلاف ہوتا ہے لیکن اس کا نقصان عوام اٹھاتے ہیں۔ یہ تماشا بھی انہیں لوٹنے کے لیے تو نہیں؟؟