افغانیوں کے خلاف آپریشن۔ پولیس کی کمائی

393

حکومت سندھ نے گزشتہ دنوں ایک ویڈیو کی بنیاد پر سندھ میں افغان باشندوں کے خلاف آپریشن کیا جتنا آپریشن کیا اس سے زیادہ اس کی تشہیر کی اور اس انداز میں کی کہ سندھی آبادیوں میں افغانیوں سے نفرت پیدا ہو۔ اس ایک روزہ آپریشن کے بعد خاموشی ہوگئی لیکن اب سندھ پولیس نے افغان باشندوں یا خیبرپختونخوا کے لوگوں کو پکڑنے اور رہائی کے عوض بھاری رشوت لینے کا دھندا شروع کردیا ہے۔ معاصر اخبار کی خبر کے مطابق نادرا کا کارڈ دکھانے کے باوجود گرفتاری کی جاتی ہے پھر ان سے رشوت لی جاتی ہے۔ ان لوگوں نے احتجاج بھی کیا ہے۔ یہ معاملہ پولیس کا صرف افغان باشندوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ اگر پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کا سودا بک رہا تھا تو پولیس ہر گرفتار شخص کو ہر داڑھی والے کو ٹی ٹی پی کے شبہہ میں گرفتار کرتی تھی۔ پھر القاعدہ کا سودا بکنے لگا تو ہر داڑھی والے کو القاعدہ کا قرار دیا جانے لگا۔ درجنوں مقدمات داخل ہوئے شاید ہی کوئی ثابت ہوسکا۔ لیکن گرفتاریوں نے جن افسروں کو ترقی دلوائی تھی وہ اعلیٰ عہدوں پر براجمان رہے۔ اب افغان باشندوں کے نام پر پولیس مال بٹور رہی ہے۔ اگر افغان دہشت گرد ہیں تو ان سے پیسے لے کر چھوڑا کیوں جارہا ہے۔ کیا پولیس بھی دہشت گردوں کی سہولت کار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اصل خرابی پولیس اور دیگر اداروں میں ہے اگر نادار جعلی شناختی کارڈ بناکر دے تو کیا کیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل بھی ٹی ٹی پی کے رہنما کا شناختی کارڈ بننے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ کسی زمانے میں 70 سال سے کراچی میں مقیم برمی اور بنگالی باشندوں کو شناختی کارڈ نہیں دیے جارہے تھے لیکن پیسے لے کر بنگلادیش شہر کو بھی پاکستانی شناختی کارڈ جاری کیے جاتے رہے ہیں یہ ادارے ہر معاملے کو کمائی کا دھندا بنالیتے ہیں۔ کوئی ہے جو انہیں روکے۔