تحفظ حقوقِ ماورائے صنف قانون اور اس کے مضمرات

681

(آخری حصہ)
قومِ لوط کے بارے میں قرآنِ کریم میں فرمایا: ’’اور لوط کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کی تھی، بے شک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس نفسانی خواہش کے لیے آتے ہو، بلکہ تم (اللہ کی مقرر کردہ) حدود سے تجاوز کرنے والی قوم ہو‘‘۔ (الاعراف: 80 تا 81) آگے چل کر فرمایا: ’’اور ہم نے اْن پر پتھر برسائے، سو دیکھو مجرموں کا کیسا انجام ہوا‘‘۔ (الاعراف: 84) ’’پس جب ہمارا عذاب آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کو تہہ و بالا کردیا اور ہم نے ان کے اوپر لگاتار پتھر کے کنکر برسائے جو آپ کے رب کی طرف سے (اپنے ہدف کے لیے) نشان زَد ہ تھے اور یہ سزا ظالموں سے کچھ دور نہ تھی‘‘۔ (ہود: 82 تا 83)، رسول اللہؐ نے فرمایا تھا: ’’مجھے اپنی امت کی بربادی کا جس چیز سے زیادہ خوف ہے، وہ قومِ لوط کا عمل ہے‘‘۔ (سنن ترمذی)
سو ہمارے پْرجوش مفتیانِ کرام کو چاہیے کہ کسی جدید مسئلے پر فتویٰ جاری کرنے سے پہلے اس کے عواقب پر ضرور غور فرمائیں یا اپنے اکابر سے مشاورت کر لیا کریں۔ جن باتوں کے فروغ کے پسِ پردہ این جی اوز کارفرما ہوں اور وہ اتنی موثر ہوں کہ ارکانِ پارلیمنٹ کے تساہْل اور شہرت پسندی کے سبب پارلیمنٹ کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہوں، تو یقینا اْن کے پیچھے عالمی ایجنڈا اور دور رس و دیرپا مقاصد ہوتے ہیں، پھر وہ معاملات کی تشریح اپنے مقاصد کے تحت کرتے ہیں اور کسی قسم کی لفظی ہیر پھیر سے گریز نہیں کرتے۔ نیز جب ایک لفظ یا اصطلاح متعدد یا متضاد معانی کی حامل ہو تو اس کے بارے میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
سینیٹ میں پاس کردہ ’’تحفظِ حقوقِ خواجہ سرا بِل‘‘ میں بھی یہ شرارت شامل ہے: بِل کی دفعہ 3 میں کہا گیا ہے: ’’ایک Transgender Person کو یہ حق حاصل ہو گا کہ اس کے اپنے خیال یا گمان کے مطابق (Self Perceived) اْسے خواجہ سرا تسلیم کیا جائے‘‘، یعنی اس سے قطع نظر کہ وہ پیدائشی طور پر مردانہ خصوصیات کا حامل تھا یا زنانہ، وہ اپنے بارے میں جیسا گمان کرے یا وہ جیسا بننا چاہے، اس کے اس دعوے کو تسلیم کرنا پڑے گا اور ذیلی سیکشن 2 میں کہا گیا ہے کہ نادرا سمیت تمام سرکاری محکموں کو اس کے اپنے دعوے کے مطابق اْسے مرد یا عورت تسلیم کرنا ہوگا اور اپنی طے کردہ جنس کے مطابق اْسے نادرا سے قومی شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، چلڈرن رجسٹریشن سرٹیفکیٹ وغیرہ کے اجرا میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔
اس بل میں یہی وہ شق ہے جو مغرب میں LGBT+ گروپ کے مقاصد کی تکمیل کا سبب بنتی ہے۔ تحفظِ حقوقِ خواجہ سرا ایکٹ کے نام پر یہی وہ روزن ہے، جہاں سے نقب لگایا جا سکتا ہے۔ ہمیں غالب یقین ہے کہ جن چار سینیٹرز کی طرف سے یہ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے، انہیں بھی اس کے عواقب اور اس کی بنیادوں میں نصب کردہ بارود (Dynamite) کا علم نہیں ہو گا۔ عالَم غیب سے ان کے ہاتھ میں ایک چیز تھما دی گئی اور انہوں نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں قانون سازی کے لیے تحریک پیش کر دی۔ پارلیمنٹ میں پاس شدہ ’’چائلڈ میرج ایکٹ‘‘ میں ترمیمی بل تو سرِدست بے اثر ہو گیا، کیونکہ اْسے کسی نے اسمبلی میں پیش نہیں کیا، لیکن ’’خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ ایکٹ‘‘ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کے بعد ایکٹ یعنی ملک کا قانون بن چکا ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’دی گزٹ آف پاکستان، اشاعت: 24 مئی 2018ء‘‘۔
اصولی طور پر تو کسی شخص کی پیدائش کے وقت جنسی اعتبار سے جو علامات ظاہر ہوں، انہی کے مطابق اس کا جنسی تشخّص مقرر کیا جانا چاہیے، لیکن اگر کسی کا دعویٰ ہو کہ بعد میں فطری ارتقا کے طور پر کسی کی جنس میں تغیر آ گیا ہے، تو اس کا فیصلہ میڈیکل ایگزامینشن یعنی اس شعبے کے ماہر ڈاکٹروں کو کرنا ہوگا، نہ کہ اسے کسی شخص کے ذاتی خیال یا گمان یا خواہش پر چھوڑ دیا جائے، جیساکہ اس قانون میں کہا گیا ہے، کیونکہ یہی عالمی سطح پر LGBT+ گروپ کا ایجنڈا ہے اور اسے مغرب میں پزیرائی مل رہی ہے۔ دینی تعلیمات اور دینی اقدار حتیٰ کہ ہماری تہذیبی روایات اور معاشرتی اقدار میں بھی اس کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ تو زرخیز زمین میں ببول کا کانٹے دار درخت اگانے کی مذموم کوشش ہے۔ اس کا راستہ پْرامن طریقے سے روکنا ہر مسلمان اور پاکستانی کی ذمے داری ہے، خاص طور پر ارکانِ پارلیمنٹ پر اس کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے اور انہوں نے اس قانون کے پاس ہونے میں جو غفلت یا دانستہ سرکشی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اور عوام کے سامنے جواب دہ ہیں، کیونکہ ہمارا آئین پارلیمنٹ کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق کی جائے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بیش تر ارکانِ پارلیمنٹ یا تو اپنی پارٹی کی ہدایات کے پابند ہوتے ہیں اور یا وہ اس طرح کے قانونی مسوّدوں کے اسرار و رموز کو جاننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے یا زحمت نہیں فرماتے۔ یہ بات ناگوار ضرور ہے، لیکن حقیقت یہی ہے۔ اسی لیے پارلیمانی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں تاکہ ہر مسوّدۂ قانون کا گہرا جائزہ لیا جائے۔ ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے اس پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں تحقیق کی جائے اور اگر کوئی مسودۂ قانون فنی امور سے متعلق ہے، تو پارلیمانی کمیٹی کو چاہیے کہ زیرِ غور مسودۂ قانون کے بارے میں اْس شعبے کے متخصصین (Specialists) اور فنی ماہرین (Technocrates) کو بلا کر رہنمائی حاصل کرے۔
اس بل میں ایک اور تضاد بھی ہے: اس بل کی دفعہ 4 ذیلی دفعہ E میں کہا گیا ہے: ’’ہر طرح کے سامان، رہائش گاہ، خدمات، سہولتوں، فوائد، استحقاق یا مواقع‘ جو عام پبلک کے لیے وقف ہوتے ہیں یا رواجی طور پر عوام کو دستیاب ہوتے ہیں، خواجہ سرائوں کے لیے اْن سے استفادے یا راحت حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی‘‘، جبکہ دفعہ 6 کی ذیلی دفعہ E میں کہا گیا ہے: ’’خواجہ سرائوں کے لیے خصوصی جیل خانے، حفاظتی تحویل میں لیے جانے کے مقامات وغیرہ الگ بنائے جائیں‘‘۔ آپ نے غور فرمایا: جیل خانے یا Confinement Cells تو خواجہ سرائوں کے لیے الگ ہونے چاہئیں، لیکن عام پبلک مقامات تک اْن کی رسائی کسی رکاوٹ کے بغیر ہونی چاہیے، مثلاً: کوئی مردانہ خصوصیات کا حامل خواجہ سرا ہے تو وہ بلاتردد زنانہ ٹوائلٹ اور واش روم میں بھی جا سکتا ہے، وغیرہ۔ الغرض ایک طرف مرد و زن کی تمیز کے بغیر عوامی مقامات پر کسی رکاوٹ کے بغیر رسائی کا مطالبہ ہے اور دوسری طرف خصوصی جیل اور حفاظت خانوں کا مطالبہ ہے۔ اس تضاد کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں، غور کا مقام ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ اگر کوئی مسلمان لڑکی کسی کے ساتھ چلی جاتی ہے اور اس کے سرپرست رسائی اور تحویل میں لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرتے ہیں تو عدالت اْسے ’’دارالامان‘‘ بھیج دیتی ہے، لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو نو مسلم ہندو لڑکیوں کو اْن کے ہندو ماں باپ کی تحویل میں دیا۔ ایسے تضادات ناقابلِ فہم ہیں۔
خواجہ سرا کے لیے وراثت میں حصہ: بل کی دفعہ7 کی ذیلی دفعہ (III) 3 میں کہا گیا ہے (a): ’’اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے پر وراثت میں مرد خواجہ سرا کے لیے مرد کے برابر حصہ ہوگا‘‘، (b) میں کہا گیا ہے: ’’زنانہ خواجہ سرا کے لیے عورت کے برابر حصہ ہو گا‘‘، (c) میں کہا گیا ہے: ’’وہ خواجہ سرا جو مذکر اور مونث دونوں خصوصیات کا حامل ہو یا اس کی جنس واضح نہ ہو، تواْسے مرد اور عورت دونوں کی اوسط کے برابر حصہ ملے گا‘‘ (d) میں کہا گیا ہے: اٹھارہ سال سے کم عمر ہونے کی صورت میں اس کی جنس کا تعین میڈیکل آفیسر کرے گا‘‘، لیکن اس بل میں کہا گیا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد وہ شخص اپنی جنس کا تعین خود کرے گا۔ یہ کھلا تضاد ہے۔
اسلام میں اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ عمر یا کم از کم عمر کے وارث کا وراثت میں حصہ ایک ہی ہے۔ اس میں عمر کے لحاظ سے کوئی تفاوت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر مْورِث کی وفات کے وقت کسی وارث کی عمر ایک دن یا چند دن تھی، تو وہ بھی اپنی صِنف کے اعتبار سے برابر کا حصے دار ہو گا۔ نیز صنف کا تعیّْن پیدائش کے وقت ہی سے ہو جاتا ہے، اس کا تعلق کسی کے اپنے گمان و خیال یا خواہش سے نہیں ہے اور اگر اس بارے میں کوئی ابہام ہے اور طبی معائنے سے طے کرنا ہے، تو بھی اس میں اٹھارہ سال یا اس سے کم عمر میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جا سکتی۔ Self Perception یعنی کسی کی اپنی خواہش پر جنس کے تعیّْن کے معنی یہ ہیں کہ وہ عورت ہوتے ہوئے اپنے آپ کو مرد قرار دیدے، تو اس کا حصہ عورت کے مقابلے میں دگنا ہو جائے گا، شریعت میں اس کی گنجائش نہیں ہے، سو شریعت کی رْو سے اس بل میں یہ بہت بڑا تضاد اور ابہام ہے۔
احادیث ِ مبارکہ میں نسوانی وضع اختیارکرنے والے مردوں اور مردانہ وضع اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی گئی ہے: ’’سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمؐ نے اْن مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور اْن عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی وضع اختیار کرتی ہیں اور فرمایا: انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔ انہوں نے کہا: سیدنا عمرؓ نے بھی ایسے ایک شخص کو گھر سے نکال دیا‘‘، (بخاری) ’’اللہ تعالیٰ نے زنانہ صورت اختیار کرنے والے مردوں اور مردانہ صورت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے‘‘، (مسند احمد) ’’سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمؐ کے سامنے ایک مْخَنَّث لایا گیا جس کے ہاتھ اور پائوں پر مہندی لگی ہوئی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا: یہ عورتوں سے مشابہت کرتا ہے۔ آپؐ نے اْسے مدینہ منورہ سے نکالنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ہم اسے قتل نہ کر دیں؟، آپؐ نے فرمایا: مجھے مسلمانوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (ابودائود) ’’سیدہ ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں: ایک خواجہ سرا آپؐ کے گھر آیا کرتا تھا، ایک بار آپؐ نے اْسے ایک عورت کی جسمانی ساخت پر گفتگو کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: اسے گھروں سے نکال دو‘‘، (ابودائود) ’’سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے زنانہ لباس پہننے والے مردوں پر اور مردانہ لباس پہننے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔ (ابودائود)