سیلاب متاثرین کی بحالی میں سماج کا کردار

370

زمین و آسمان میں ربّ العالمین کی قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں، دن رات کا بدلنا، سورج کی تپش اور چاند ستاروں کی روشنی، ہواؤں کا چلنا، بارش کا برسنا، خشک مٹی سیراب ہوکے سبزہ زار میں بدلنا، موسموں کے تغیر و تبدل، واضح طور پہ اس سمت اشارہ کرتا ہے کہ کوئی ذات ایسی ہے جو اس سارے نظام کو چلارہی ہے، وہ جس کے ’’کن‘‘ کہہ دینے سے ہر کام ہوجاتا ہے، وہ جس کی مشیت کے بغیر ایک پتا بھی گر نہیں سکتا:
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے!
کرۂ ارضی پہ بسنے والے انسان، جب متعین کردہ دائرہ ٔ کار سے باہر نکل جاتے ہیں اور ارادی یا غیر ارادی طور پر ربّ العالمین کے احکامات کو فراموش کردیتے ہیں تو پھر ان کے ضمیر کو جگانے کے لیے قدرت کے اپنے انداز ہیں جو انسان کو اس کی حقیقت سے آشنا کردیتے ہیں بلکہ آزمائش کا وقت ایک کسوٹی ہوتا ہے جو کھوٹے اور کھرے کو الگ الگ کرکے دکھا دیتا ہے۔
دنیا کے بہت سے ممالک اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہیں جس کی بڑی وجہ صنعتی ممالک کی فضائی آلودگی، نام نہاد سپر پاورز کا کئی جگہ محاذوں کا کھولنا، اسلحے کی دوڑ، بائیو ٹیکنالوجی اور ہارپ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے اور ترقی پزیر ممالک خصوصاً متاثر ہورہے ہیں۔ ماہ جولائی کی بارشیں، پاکستان میں سیلابوں کے سلسلے کا پیش خیمہ بن گئیں، سیکڑوں دیہات زیرِ آب آگئے، کئی لاکھ کیوسک پانی کا طوفانی ریلا جس آبادی سے گزرا، وہ صفحہ ٔ ہستی سے مٹ گئی۔ تیار فصلیں تباہ ہوگئیں۔ خیبر، سندھ اور بلوچستان کے علاوہ جنوبی پنجاب بھی سیلاب کی زد میں آگیا، ہزاروں جانیں پانی میں ڈوب کے ہلاک ہوگئیں، نقصانات کا تخمینہ ابھی تک لگایا جارہا ہے۔ صوبہ سندھ میں کئی مقامات پر وڈیروں اور جاگیر داروں نے اپنی زمین بچانے کے لیے ندی نالوں میں کٹ لگا کر سیلاب کا رخ کچے مکانات کی طرف پھیر دیا اور غریب لوگ خود کو بچانے کے لیے کچھ نہ کرپائے۔ ایسے کٹھن وقت میں جب حکومت کے اعلیٰ حکام، وزیروں مشیروں کے لشکر کے ساتھ کینیڈا کے سرکاری دورے پر، محوِ سیاحت تھے، پاکستانی عوام بے چارگی اور بے بسی سے لقمہ ٔ اجل بن رہی تھی۔ اس وقت فوجی جوانوں کے ہمراہ، عوام کا ساتھ دینی جماعتوں نے دیا۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے ہمت و جرأت کی نئی داستانیں رقم کیں، دریاؤں میں ڈوبی گاڑیوں کو رسیوں سے کھینچ کر نکالا، قیمتی جانوں کو بچایا کیا۔ عوام نے بھی دیدہ و دل فرشِ راہ کیے۔ سیلاب زدگان کے لیے کپڑوں، بستروں، اشیائے خوردنی اور نقد رقوم کے ڈھیر لگادیے ننھے منے بچے اپنے گھروں سے کھلونے اور فیڈر اٹھا کے گفٹ کرتے رہے۔ سیلاب میں ڈوبی بستیوں میں کشتیوں کے ذریعے کھانا پہنچانے کا انتظام کیا گیا، بیمار اور زخمی افراد کے لیے میڈیکل کیمپ لگائے گئے۔ تا حال کئی خیمہ بستیاں آباد کی جا چکی ہیں جن میں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا ہے۔
حالیہ سروے کے مطابق، سیلاب متاثرین میں پچھتر ہزار خواتین حاملہ ہیں جن کی ڈلیوری آئندہ دو ماہ میں متوقع ہے۔ یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ ان خواتین کو بحفاظت کیسے اس مرحلے سے گزارا جائے اور نومولود بچوں کی جانیں کیسے بچائی جائیں۔ اس وقت گائنی ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف کی اشد ضرورت ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر!