اسحق ڈار کی آمد

600

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات میں یہ طے پاگیا ہے کہ اسحق ڈار کو پاکستان بلا کر سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھوایا جائے گا اور وزیرخزانہ بنایا جائے گا۔ اسحق ڈار اس سے قبل بھی ملک کے وزیرخزانہ رہے ہیں اور ان کی کارکردگی اور ملک کی دوسری پارٹیوں کے وزرائے خزانہ کی کارکردگی یکساں ہی رہے۔ خبر کے مطابق مفتاح اسماعیل حکومت کی معاشی ٹیم کا حصہ رہیں گے۔ ملک کے ساتھ تو مذاق کیا جارہا ہے بار بار ایک ہی قسم کے لوگوں کو سامنے لایا جاتا ہے قوم کو یہ راگ سنایا جاتا ہے کہ اب ہم تبدیلی لے آئیں گے۔ اب قوم کے دکھوں کا مداوا جائے گا۔ لیکن کیا اسحق ڈار نے پہلے کبھی ملک کے غریبوں کے دکھوں کا مداوا کیا ہے؟ پاکستان کا معاشی مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہر حکمران آئی ایم ایف اور بیرونی قرضوں پر تکیہ کرتا ہے پھر وہاں سے ہدایت آتی ہے کہ اس پر من و عن عمل کیا جائے اور یہ حکمران ایسا ہی کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی غلامی میں تو وزارت خزانہ کا ایک کلرک بھی معاشی ٹیم کا سربراہ بن سکتا ہے بلکہ بہتر ہوسکتا ہے کیوں کہ اسے تو کوئی فیصلہ نہیں کرنا۔ جو حکم آئے اسے ہی نافذ کرنا ہے۔اور وہ وزارت چلانے کے امور سے بھی بخوبی واقف ہوتا ہے ۔ پاکستان میں اب تک بننے والے وزائے خزانہ سے بہتر وزارت کے کلرک ہی ہوتے ہیں ۔کم از کم وہ قوانین تو جانتے ہیں ۔ نواز شریف کی جانب سے بار بار مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں پر تنقید اور عوام کے لیے تڑپ کا مقصد ہی یہ تھا کہ اسحق ڈار صاحب کو لانا ہے ۔ چند روز میں سامنے آ جائے گا کہ اسحق ڈار صاحب قوم کے لیے کیا لا رہے ہیں ۔ چند نمائشی اعلانات اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہیر پھیر کے بعد پرانی ڈگریز پر سب سے آسان کام حکمرانوں کو یہ لگتا ہے کہ مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے اور بڑی آسانی سے مشکل فیصلے کربیٹھتے ہیں انہیں کیا مشکل۔