ٹرانس جینڈر بل، عالمی شیطانی ایجنڈا

1054

پاکستان آج چاروں طرف سے مصیبت پریشانیوں مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ایک پریشانی کا خاتمہ ہوتا ہے تو دوسری سرپر آجاتی ہے۔ شہباز شریف ہوں یا نواز شریف، عمران خان ہوں یا بے نظیر بھٹو کی حکومت سب کی سب قدرتی آفات پریشانی مشکلات کا شکاررہی ہیں۔ 8اکتوبر 2005 کے زلزلے نے تو بہت سے سوال ذہنوں میں چھوڑ دیے لیکن ہم ہیں کہ باز آتے ہی نہیں اور اللہ سے بغاوت اور اللہ کی نافرمانی چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ 2015 کے زلزلے کے موقع پر بالاکوٹ جانے کا موقع ملا تو وہاں قیامت صغریٰ کا منظر تھا سب کچھ تباہ اور ملیا میٹ ہوچکا تھا کوئی ہوٹل کوئی گھر سلامت نہیں رہا سب کا سب ملبہ کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ بالاکوٹ مین بازار جو مرکزی چوک بھی ہے وہاں مدنی پلازہ وہ واحد عمارت تھی جو کہ اس زلزلے میں محفوظ رہی۔ اس ہوٹل کے مالک بشیر حسین سے ان کے قریبی دوست طیب اعجاز سلمانی کے توسط سے ملاقات کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے آگاہ کیا کہ ان کے پلازہ میں بغیر نکاح نامہ کے ہم کسی کو کمرہ نہیں دیتے اور میں خود باقاعدگی کے ساتھ اپنی زکواۃ ادا کرتا ہوں اور تمام دینی شعائر پر سختی سے عمل پیرا رہنے کی کوشش کرتا ہوں جس کی وجہ سے اللہ نے مجھ پر رحم کا معاملہ فرمایا اور مجھ پر خصوصی کرم فرمایا اور تباہ کن زلزلے میں میرا پلازہ محفوظ رہا۔ خوفناک زلزلے نے بالاکوٹ میں ایسی تباہی مچائی کہ بالاکوٹ کا پورا شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ وہ بالاکوٹ جہاں سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید کے مزار ہیں وہاں وہ کچھ ہوتا تھا جو ناقابل بیان ہیں۔ دن ہو یا رات یہاں شراب کباب کی محفلیں سجتی تھی۔ کے پی کے، اسلام آباد، پنجاب اور آزاد کشمیر تک کے افسران، سیاستدان، وزراء نواب، خان، وڈیرے، جاگیر داراور بڑے بڑے شرفاء کے لیے یہاں محفلیں سجتی تھیں۔ یہاں مساجد نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن گھر گھر میں عیاشی کے اڈے کھلے ہوئے تھے پھر اللہ نے ان پر وہ عذاب نازل فرمایا جس کا ذکر قرآن میں ہے کہ ’’ان پر پتھروں کی بارش کی گئی اور سب کچھ بھسم ہوکر رہے گیا‘‘ اس قیامت خیز زلزلے میں تقریباً 70ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے اور لاکھوں کی تعداد میں زخمی اور بے گھر ہوئے تھے اس خوفناک زلزلے کی یاد آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔
پاکستان جو خالصتا اسلام کے نام پر قائم ہوا لیکن بدقسمتی سے ایک دن کے لیے بھی یہاں اسلام کا عادلانہ نظام عملی طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔ ہم سب اسلام کی تو بات کرتے ہیں لیکن نظریں ہماری اسلام آباد کی طرف ہی لگی ہوتی ہیں۔ اقتدار کے حصول کے لیے ہم اپنے مغربی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے دینی شعائر کا مذاق اُڑاتے ہیں اور دین اسلام کی اساس پر حملہ آور ہوتے ہیں اس کی تازہ مثال پاکستان کی پارلیمنٹ سے دوتھائی اکثریت سے پاس ہونے والے شرمناک ’’ٹرانس جینڈربل‘‘ کی ہے۔ یہ بل 2018 میں قومی اسمبلی میں پیش ہوا تھا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان وہ واحد سینیٹر تھے جو اوّل روز سے اس بل کے پس پردہ محرکات کے بارے میں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ترامیم کا ایک نجی بل جمع کرایا جو قواعد کے مطابق انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
یہ بل ایک عالمی شیطانی ایجنڈے کا حصہ ہے اور ملک بھر کی سیکولر اور لادینی قوتوں کی اسے بھرپور حمایت بھی حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی نے اس بل کی مکمل حمایت کی۔ سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے شور شرابے پر جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت اہل حدیث بھی اب اس بل کے خلاف بولنے پر مجبور ہوگئی ہیں جبکہ کہ وفاقی شریعت عدالت نے سینیٹر مشتاق احمد، فرحت اللہ بابر، الماس بوبی سمیت مختلف افراد کی جانب سے فریق بننے کی درخواستیں بھی منظور کر لی ہیں اور تمام فریقین کو اپنی گزارشات تحریری طور پر جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
ٹرانس جینڈردراصل ایک پیدائشی نقص ہے ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کے بغیر جنس کا تعین نہیں ہوسکتا لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ 2018 میں کسی بھی شخص کو خود کو محسوس شدہ صنفی شناخت کے ساتھ رجسٹرڈ کرانے کا حق دیا گیا ہے۔ جس سے خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ یہ بل ہم جنس پرستوں کے لیے انتہائی معاون ثابت ہوگا اور ہم جنس پرستی کو فروغ دے گا۔ اس بل کے بعد جو شخص خود کو جیسا چاہے گا وہ اس جنس میں رجسٹرڈ کروا سکتا ہے جو غیر شرعی ہے اور اسلام میں اس کی قطعی اجازت نہیں ہے اور یہ قانون غیر آئینی ہے اور اسلامی اقدار پر شرمناک حملے ہے۔
اس طرح کا بل یورپ میں بھی نہیں ہے، بھارت میں باقاعدہ میڈیکل بورڈ بیٹھتا ہے پھر اس کی جنس کا فیصلہ کیا جاتا ہے، برطانیہ میں دوسال انتظار کے بعد جنس کا تعین کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ تین سال میں تقریباً اس قانون کے تحت 30ہزار افراد نے اپنی جنس تبدیل کروائی اور13ہزار افراد عورت سے مرد بن گئے 17ہزار عورتیں مرد بن گئی ہیں یہ صورتحال خاندانی نظام کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں اس کے لیے ضرورت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور پاکستان کی تمام دینی جماعتیں سیکولر اور لادینی قوتوں کے اس ایجنڈے کو ناکام بنا ئیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’اللہ کے نبیؐ نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے‘‘۔ (بخاری) مشابہت اختیار کرنا حرام ہے تو جنس تبدیل کروانا کتنا مذموم فعل ہوگا اور پھر اس مذموم فعل کو قانونی طریقے سے جواز کی راہ فراہم کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا۔
پاکستان کے حکمراں اللہ سے توبہ اور استغفار کریں ملک پہلے ہی سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور چاروں طرف سے پاکستان کو آفات نے گھیرا ہوا ہے۔ سیدنا لوط ؑ کی امت جس گمراہی اور جس گناہ کی دلدل میں دھنسی ہوئی تھی آج اس گناہ کو قانونی شکل دے کرہم اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ زلزلہ کے بعد سیلاب اللہ کا عذاب نہیں تو پھر کیا ہے حکمرانو! ہوش کے ناخن لو کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ کا غصہ قہر بن کرہم پر نازل نہ ہوجائے۔
پاکستان کے حکمراں اور پاکستان کی اسمبلی میں بیٹھے افراد اللہ کے قہر کو دعوت دے رہے ہیں۔ مغرب کی خوشنودی کے لیے پاکستان کے اسلامی تشخص کو تباہ کرنے والے خود تباہ ہوجائیں گے۔ پاکستان خالصتاً اسلام اور کلمہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اور اسلام کے سوا کوئی اور نظام اس ملک میں چل نہیں سکتا۔ پاکستان میں غیر شرعی قوانین کے نفاذ کی کوشش اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے متراد ف ہیں۔