کراچی ماسٹر پلان 2047: اہلیت کا مسئلہ

598

کراچی تین کروڑ سے زیادہ آبادی والا دنیا کا 7 واں بڑا شہر ہے، کراچی کو اس کے بے پناہ تنوع کی وجہ سے پہچانا اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس وقت اس شہر کے پاس سرکاری طور پر کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے۔ اب یہ خبر آئی ہے کہ حکومت نے کراچی ماسٹر پلان 2047 کی تیاری کا آغاز کر دیا اس کی مدت کی تعین قیام پاکستان کی تاریخ سے کیا گیا ہے، اس کے منصوبے کے پی سی ٹو پر غور کے لیے آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے چیئر مین اور ارکان میں ایس بی سی اے، کے ڈی اے، ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے سمیت دیگر اداروں سے نمائندے شامل کیے گئے ہیں۔ ہمارے یہاں بڑے پیمانے پر دیہی علاقوں سے شہر کی طرف نقل مکانی ہورہی ہے، صنعتوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوا ہے، تجارت بڑھی ہے، شہر میں گاڑیوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اس ساری صورت میں شہر کا پورا ماحول تبدیل اور ابتر ہوگیا ہے، آلودگی کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل بڑھے ہیں۔ لیکن ان سب سے اسی وقت نمٹا جاسکتا ہے کہ جب آپ کے پاس طویل المیعاد منصوبہ بندی ہو، سماجی و اقتصادی اثرات سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پانے کی صلاحیت اور پلان ہو، ماسٹر پلان کسی بھی شہر کی زمین کے موجودہ استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ آبادی کے لحاظ سے ڈویلپمنٹ کی سفارشات تیار کرتا ہے، دیکھنے میں آیا ہے کہ تیسری دنیا کے شہروں میں حکومتوں نے منصوبہ بندی اور ترقیاتی منصوبوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، کچھ شہروں میں اچھی کارکردگی کی وجہ سے بہتری بھی آئی ہے اور جو ایسا نہیں کرسکے وہ وقت کے ساتھ ساتھ تنزلی کا شکار ہو گئے، اور ان شہروں میں رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ کراچی کا شمار ایسے ہی بدترین شہروں میں ہوتا ہے جو کسی بھی منصوبہ بندی کے بغیر چل رہا ہے، جب کہ کہا یہ جاتا ہے کہ 1960ء کی دہائی کا ایک دور ایسا بھی تھا کہ کراچی کو ترقی پزیر دنیا میں ترقی کا رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنوبی کوریا نے شہر کا دوسرا پنج سالہ منصوبہ برائے 1960ء تا 1965ء اپنایا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے زوال کا ایک ایسا سفر شروع ہوا کہ آج کراچی میں پانی کو لوگ ترس رہے ہیں، کراچی میں پانی کا آخری منصوبہ کے تھری سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے مکمل کیا تھا اور اس کے فوری بعد کے فور منصوبہ پیش کیا، آج 17سال گزرگئے لیکن وہ مکمل نہیں ہوسکا ہے، اس وقت کراچی کی ہر گلی کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہی ہے۔ کراچی کا کچرا تک ٹھکانے لگانے کا بندوبست نہیں ہے، کراچی میں اس کی آبادی کے لحاظ سے علاج معالجے کی صورت حال بدترین ہے اسے بڑے اسپتالوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کراچی کے سرکاری اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ناقص میٹریل کے ساتھ اسکولوں کی عمارت تعمیر کرنے کے بعد سندھ حکومت غائب ہوجاتی ہے جیسے اسکولوں کی دیکھ بھال اور عمارتوں کی تعمیر ومرمت اور رنگ وروغن کوئی کام ہی نہیں ہے، ٹرانسپورٹ کی صورت حال بہت خراب ہے، خراب بسوں میں اپنی نشست حاصل کرنے کے لیے دھینگا مشتی روز کا معمول ہے۔ گرین بس کا منصوبہ تاحال ادھورا ہے، اور اس پر مزید کام بھی نہیں ہورہا ہے، سندھ گورنمنٹ نے بہت زیادہ تنقید کے بعد چند لال بسیں برائے نام چلائی ہیں لیکن وہ مسئلے کا حل نہیں نتیجہ وہی ہے کہ آج بھی عوام، خواتین اور بزرگ چنگ چی رکشوں پر سفرکرنے مجبور ہیں۔
ان ساری چیزوں کے درست ہونے کا تعلق بڑے اور دیرپا منصوبوں سے ہیں لیکن شہر کو کوئی اون کرنے والا ہو تو چیزیں صحیح سمت میں آگے بڑھیں۔ اور یہی کراچی کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔ اس شہر کے ماسٹر پلان تو بنتے رہے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے ہر پلان پر لوگوں کا پیسہ بہت خرچ ہوتا ہے لیکن کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہوتا۔ کراچی کے لیے پہلا ماسٹر پلان 1951 میں اگلے 10 سال کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ دوسرا 1962 میں اور تیسرا 1975 میں 10 سال کے لیے تیار ہوا تھا۔
1995ء سے 2000ء تک کا منصوبہ کبھی بھی منظور نہیں ہوا، اس کی جو سفارشات تھیں ان پر عمل نہیں ہوا اور عمل درآمد نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ ماہرین کے مطابق کراچی کا ماسٹر پلان بروقت تیار نہ ہونے کی سب سے اہم وجہ قابل افسران کی عدم دستیابی ہے۔ 2005 میں کراچی اسٹرٹیجک ماسٹر پلان 2020 سامنے آیا، اس کی سفارشات پر عمل درآمد تو کیا ہوتا سندھ حکومت نے اسے قبول ہی نہیں کیا تھا۔ اس ماسٹر پلان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں لکھا تھا کہ 2020 تک کراچی کی آبادی 2کروڑ 75لاکھ ہوجائے گی لیکن 2017 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60لاکھ ظاہر کی گئی جب کہ کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آبادی اب تین کروڑ سے زیادہ ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے جب تک ٹھیک گنتی نہیں ہوگی اس کے بغیر کسی بھی شہر کا ماسٹر پلان درست اور ضرورت کے تقاضوں کے مطابق نہیں بن سکتا۔ اس وقت شہر جس ابتری کا شکار ہے اس کی مثال نہیں ملتی ہے، اس لیے کراچی کو ایسے ماسٹر پلان کی ضرورت ہے کہ جس میںآبادی کی درست گنتی کے ساتھ پلاننگ ہو، اس منصوبہ بندی میں ماحولیات کا خیال رکھا جائے، قدرتی آفات سے نمٹنے، زیر زمین آبی ذخائر کا منصوبہ ہو، سیلاب، آبی ذخائر، حیوانات، نباتات اور تفریحی مقامات، پبلک پارکس، کھیل کے میدانوںکے حوالے سے خیال رکھا جائے، وہاں ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کے مسائل کے لیے منصوبہ بندی ہو، پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے سبسڈی دی جانی چاہیے۔ سامان کی نقل و حمل کے لیے مزید بائی پاس بنانے کی ضرورت ہے، سرکلر ریلوے زمینی حقائق کی روشنی میں پھیلانے کی ضرورت ہے، اسی طرح رہائش کے لیے، غریبوں آسان شرائط پر زمین دینا اور وہاں مکان بنانے کے لیے تعاون کی پیشکش کی جانی چاہیے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ کراچی کو ترقی یافتہ انفرا اسٹرکچر کے ساتھ ایک خوبصورت شہر میں تبدیل کرنے کے لیے ایک نیا ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف دیگر میٹروپولیٹن شہروں کا مقابلہ کر سکے بلکہ مستقبل کی ضروریات کو بھی پورا کر سکے۔ لیکن موجودہ سندھ حکومت اور شہری قیادت سے ماضی کی روشنی میں یہ امید رکھنا کہ وہ کوئی ایسا طویل الامعیاد منصوبہ بنانے میں سنجیدہ ہوں اور پھر ان کے اندر اس کام کی صلاحیت ہو عبث ہے۔ اور ایس بی سی اے اور کے ڈے کے افسران جن کی اہلیت ایک الگ مسئلہ ہے جن کی آنکھوں کے سامنے اور نگرانی میں 80 اور 100گز کے پلاٹ پر کئی کئی منزلہ کمرشل عمارتیں تعمیر کی جارہی ہوں او ر جو پورے شہر اور اس کے انفرا اسٹریکچر کو تباہ کرنے کے اصل ذمے دار ہوں ان سے اتنی بڑی منصوبہ بندی کرانا ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس وقت شہر کو نئی ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اس کا درد بھی رکھتی اور کام کرنے کی صلاحیت بھی اس کے اندر موجود ہو اس کے بغیر 2047 جیسے ماسٹر پلان کے عنوان وقتی خبر سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔