گھن زدہ

583

سمجھ میں نہیں آتا جو شخص کچھ نہیں سمجھتا اسے سب کچھ کیوں اور کیسے سمجھ لیا گیا ہے عمران خان کی مقبولیت کا ڈھول پیٹنے والے عوام میں گھل مل جائیں تو معلوم ہو گا کہ جس کی مقبولیت کے گن گائے جا رہے ہیں وہ عوام کی نظر میں گھن زدہ ہے۔ سیاست ہماری سویٹ ڈش بن چکی ہے جہاں چند افراد جمع ہوں یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ملکی سیاست پر گفتگو نہ کریں ایسی ہی ایک گفتگو کے دوران ایک بزرگ نے یہ کہہ کر ہمیں حیرت زدہ کر دیا آپ بھی سنتے تو حیرت زدہ رہ جاتے۔ سنیے اور سر پیٹے۔ حالات اور واقعات بتا رہے ہیں عمران خان امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہیں سوال کیا گیا آپ کی سوچ کا مآخذ کیا ہے سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر کسی کلمہ گو کے بارے میں ایسی بد گمانی زیب نہیں دیتی، دخل انداز ہونے والے نوجوان کا منہ سرخ اور ہونٹ کف آلود ہو گئے وہ کہہ رہا تھا آپ بزرگ ہیں آپ کی عمر کا لحاظ کر رہا ہوں ورنہ…
ورنہ کیا؟ استفسار کیا گیا… خیر جانے دو فساد پھیلانا اچھی بات نہیں۔ جواباً بزرگ نے کہا ہم بھی یہی چاہتے ہیں تمہارا پیر و مرشد ایسی باتیں نہ کیا کرے جو فساد کا موجب بنتی ہے۔ پوچھا گیا کہ عمران خان نے ایسی کون سی باتیں کی ہیں جو فساد پھیلانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ کوئی ایک بات ہو تو بتائی جائے خان صاحب خود بھی ان باتوں کو بھول جاتے ہیں کوئی اور کیسے اور کیونکر یاد رکھ سکتا ہے مگر تمہارے قائد نے ایک ایسی بات کہی ہے جسے بھولنا ممکن ہی نہیں۔ غور سے سنو اور پھر دیانت داری سے فیصلہ کرو۔ اگرچہ تم سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی عقیدت ایسی بیماری ہے جو دیمک کی طرح کھوکلا کر دیتی ہے عمران خان کے عقیدت مند بھی کھوکھلے ہو چکے ہیں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عقیدت کی کوکھ سے توقع جنم لیتی ہے اور توقع قبر میں اُتار دیتی ہے۔ عمران خان سے خوشحالی کی توقع رکھنے والے بھی قبروں میں اُتر جائیں گے۔ کیونکہ ان کی سیاست کا مقصد ملک اور قوم کی خدمت نہیں اپنے سر پرستوں کی خواہشات کی تکمیل ہے۔
بزرگو! ا لف لیلیٰ کی داستان مت سنائو عمران خان سے وابستہ کوئی کہانی سنائو۔ عمران خان کی کہانی تو حکیم محمد سعید نے جاپان کہانی میں سنا دی ہے مگر اس کہانی کو سننے والوں کی سماعت کے جزیروں پر میڈیا قابض ہو گیا تھا جس نے جاپان کہانی کو جاپانی گڑیا بنا دیا عقیدت کی عینک اتار کر دیکھو تمہیں حقیقت دکھائی دے گی وہ حقیقت جسے دیکھنا تم پسند نہیں کرتے۔ عمران خان کہتے ہیں رسول عربی اللہ کا پیغام لے کر آئے تھے۔ تم میرا پیغام لوگوں تک پہنچائو میں بھی پیغمبر اسلام کی طرح اسلام پھیلانا چاہتا ہوں۔ جو مجھے نہیں مانتا وہ مشرک ہے، جو مجھے ووٹ نہیں دے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ اس بیان کے بین السطور پر غور کرو تمہیں اپنی عقیدت کے اندھے پن کا احساس ہو جائے گا۔ ایک ایسا شخص جو درست لب و لہجہ کے ساتھ قرآنی آیات نہیں پڑھ سکتا وہ اسلام کی تردیج کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے۔
بنیاد تو اس کی پڑی قیس کے ہاتھوں
لیکن مرے ہاتھوں ہوئی ترویج جنوں کی
مسلمان گھرانے کا بچہ بھی جانتا ہے کہ مبعوث ہونے والے پیغمبروں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ مگر عمران خان نہیں جانتے کسی نام نہاد اداکار کی طرح بڑھکیں مارتے رہتے ہیں۔ کبھی اسلام آباد کو بند کرنے کی بڑھک مارتے ہیں، کبھی انتظامی اداروں کو نیست و نابود کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں ان پر دہشت گردی کا مقدمہ قائم کر کے پاکستان کو رسوا کرنے کی شرم ناک کوشش کی گئی ہے ہم پر مسلط کیے گئے حکمران اپنے مقدمات ختم کرنے کے سوا کچھ نہیں سوچ سکتے۔
عمران خان کیا ہیں کیا نہیں ہیں دنیا کو اس سے کوئی غرض نہیں البتہ دنیا یہ ضرور سوچ رہی ہے کہ پاکستان کے خفیہ اداروں اور مقتدر طبقے نے کیا سوچ کر عمران خان کے سر پر حکمرانی کا تاج رکھا تھا۔ عمران خان جو بڑھکیں مار رہے ہیں اس کی حوصلہ افزائی مقتدر طبقہ ہی کر رہا ہے۔ عمران خان کی سیاست فلمی بڑھکیں مارنے کے مترادف ہے۔ موصوف کی تازہ ترین بڑھک یہ ہے کہ میاں نواز شریف پاکستان آئے تو ایسا استقبال کیا جائے گا لوگ مدینے میں کی گئی واردات کو بھول جائیں گے۔
چودھری فواد کی سیاست عمران خان کی مقبولیت تک محدود ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اکثریت کے نہیں اقلیت کے لیڈر ہیں۔ ستر فی صد پاکستانیوں کی نظر میں ان کی سیاسی حیثیت مشکوک ہے اور جہاں تک ان کی مقبولیت کا تعلق ہے تو یہ کھلاڑی ہونے کے سبب ہے۔ اہل پاکستان کے لوگ کرکٹ کے بہت شوقین ہیں جن کی تعداد تیس پینتیس فی صد سے زیادہ نہیں سوچنے کی بات یہی ہے کہ تیس، پینتیس فی صد ووٹ لینے والا سیاستدان حکمرانی کا حقدار کیسے ہو سکتا ہے۔ جمہوری ممالک میں پچاس فی صد ووٹ لینے والی جماعت ہی حکومت بناتی ہے۔ عمران خان کی مقبولیت اور شہرت کا ڈھول پیٹ کر صرف سماعتوں کو مجرح کیا سکتا ہے جو ایک غیر شریفانہ عمل ہے۔
چودھری فواد کہتے ہیں کہ الطاف حسین اور نواز شریف کی عمران خان سے کوئی سیاسی نسبت نہیں عمران خان مقبولیت کی ان بلندیوں پر ہیں جنہیں دیکھنے والوں کی دستار زمیں بوس ہو جائے گی۔ اسد عمر کی رائے کے مطابق حکومت کو معیشت کی کوئی فکر نہیں وہ مخالفین اور صحافیوں کو کچلنے کی سازش کرنے میں اپنی ذہنی توانائی ضائع کر رہی ہے۔