غذائی قلت اور وبائی امراض کا خطرہ

473

اقوام متحدہ نے خبر دار کیا ہے کہ پاکستان میں غذائی قلت اور وبائی امراض سیلاب سے زیادہ ہلاکت خیز ہوسکتے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار جولیس ہارنیس نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں سیلاب سے زیادہ مہلک ثابت ہوسکتی ہیں۔ سیلاب کے بعد پاکستان کو مزید آفات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ڈینگی، ملیریا، ہیضہ اور اسہال جیسی بیماریوں کے ساتھ غذائی قلت کی وجہ سے ہونے والی اموات سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ ہوں گی۔ سیلاب کے باعث صحت کا نظام یہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے۔ اس سے قبل عالمی ادارہ صحت بھی اس خطرے کا اظہار کرچکا ہے۔ یونیسیف کے نمائندے فیلڈ میں کام کررہے ہیں۔ پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کے بعد کہا ہے کہ سیلاب میں 500 بچے جاں بحق ہوئے اور اب سیلاب کے بعد کے حالات کا سامنا ہے جس کے لیے ہم سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد کی زندگیوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔ اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر برائے پناہ گزین اور مشہور اداکارہ انجلینا جولی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اگر پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں بھرپور امداد نہیں پہنچی تو بچنے والے بھی نہیں بچیں گے۔ اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے نمائندوں کے سیلاب زدہ علاقوں کے مشاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ امدادی سرگرمیوں اور بحالی کے کام سے مطمئن نہیں ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ بھی اس حوالے سے اپنا فریضہ ادا نہیں کرسکے ہیں کہ وہ سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کی تفصیل حاصل کرکے قوم اور حکمرانوں کے سامنے پیش کرسکیں۔ اس بارے میں جو تفصیل سامنے آئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ بڑی آبادی تک امداد نہیں پہنچ سکی ہے۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاری کے حوالے سے عالمی سطح پر بھی تشویش پیدا ہوچکی ہے، لیکن اصل مسئلہ عالمی امدادی سرگرمی ہے جس میں خوراک، ہنگامی طبی سہولتیں، شیلٹر شامل ہیں۔ اس کے بعد بحالی اور تعمیر نو کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ متاثرین سیلاب کو ملکی مدد پہنچنے کا ہدف ابھی پورا نہیں ہوا ہے، اسی کے ساتھ مستقبل کے خطرات سے بھی اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت نے خبردار کردیا اس لیے کہ پانی کی موجودگی وبائی امراض کا سبب ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات زیر بحث آگئے ہیں۔ اب یہ دنیا کا مستقل مسئلہ بن چکا ہے لیکن پاکستان کے حوالے سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عملی اقدام کیا ہو۔ فوری مسئلہ متاثرین سیلاب کی امداد اور بحالی ہے، جب کہ سیلاب کی وجہ سے ٹھیرا ہوا پانی نئی مصیبت کا سبب بننے والا ہے اور اس کی رپورٹیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہی کا موضوع عالمی گفت و شنید کا موضوع بن گیا ہے، جو خوش آئند امر ہے لیکن یہ بات بھی ظاہر ہوگئی ہے کہ ہمارا حکمرانی کا نظام قابل رشک کارکردگی دکھانے میں ناکام ہے۔ وفاق پر 14 جماعتی اتحاد حکمراں ہے، دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں حزب اختلاف کی جماعت کی حکومت ہے۔ صوبہ سندھ میں حکمراں جماعت وفاق میں بھی اتحادی ہے۔ یہ تمام حکومتیں اس بحرانی دور میں اپنا کام نہیں کرسکیں۔ سیلاب زدہ علاقوں کا مشاہدہ کرنے والے تمام افراد نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ حکومت کہیں نظر نہیں آئی۔ جب امداد اور بحالی کا کام ہی تسلی بخش نہیں ہوگا تو اس کے مابعد اثرات یعنی غذائی قلت اور وبائی امراض کی لہر کا مقابلہ کیسے ہوگا۔