اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا خطاب

450

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک، عالمی مالیاتی اداروں، خصوصاً FOSSIL ایندھن کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کی بدترین تباہ کاریوں کا ازالہ کرنے کے لیے ترقی پزیر ملکوں خصوصاً پاکستان کی مدد کریں جس کا بہت بڑا علاقہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا براہ راست مشاہدہ کرکے جاچکے ہیں۔ انتونیوگوتریس کے مطابق پاکستان میں برطانیہ کے رقبے کے برابر علاقہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ پاکستان میں سیلاب زدہ علاقوں کے براہ راست مشاہدے کے بعد ہی سے انہوں نے دنیا کی توجہ اس تباہ کاری کی جانب مبذول کراتے ہوئے اس کا ذمے دار ترقی یافتہ ملکوں کی ہوسِ دولت کو قرار دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے بڑے پیمانے پر کاربن کے اخراج کی قیمت ادا کررہا ہے۔ پاکستان سے جانے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے پر عالمی برادری کو خصوصی طور پر متنبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کرئہ ارض جل رہا ہے اور اس آگ میں لاکھوں افراد بھسم ہورہے ہیں۔ 80 فی صد زہریلی گیسوں کے اخراج کے ذمے دار G-20 کے ممالک، جب کہ ان کے بدترین اثرات پاکستان اور دوسرے ترقی پزیر ممالک بھگت رہے ہیں۔ انتونیو گوتریس نے کہا کہ انہوں نے خود پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والی تباہی کا مشاہدہ کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا بحران اخلاقی اور معاشی عدم مساوات کے مطالعے کے لیے ایک مثال ہے۔ موجودہ دنیا کو کئی مسائل کا سامنا ہے جن میں غذائی تحفظ، موسمیاتی تبدیلی اور زرعی اجناس اور مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاری کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے امیر ملکوں سے فوسل ایندھن کمپنیوں پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ٹیکس کی رقم سے موسمیاتی تباہی اور مہنگائی میں اضافے کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کئی ممالک کو قدرتی آفات کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر غیر معمولی بارشیں تباہی پھیلا رہی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے کم ذمے دار ممالک بدترین نتائج کا سامنا کررہے ہیں۔ متاثرہ ممالک عالمی برادری کی جانب سے ٹھوس اقدامات کے منتظر ہیں۔ جی 20 جیسے ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پزیر ممالک کی خصوصی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔ حالات کی سنگینی کو انہوں نے ایک اور زاویے سے بھی بیان کیا کہ پوری دنیا فوسل فیول کے نشے کی عادی ہوگئی ہے۔ یہ نشہ ختم کروانے کا وقت آگیا ہے، تیل اور ایندھن کی کمپنیوں اور ان کے آلہ کاروں کے احتساب کی ضرورت ہے۔ یہ خطاب ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب اقوام متحدہ کے مرکز میں پوری دنیا کی قیادت جمع ہے، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس سالانہ تقریری مقابلے سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ دنیا جمہوریت پر ایمان رکھتی ہے لیکن سب سے بڑے عالمی ادارے کو غیر جمہوری بنا کر رکھا ہوا ہے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ فیصلہ کن ادارہ 15 رکنی سیکورٹی کونسل ہے جس کے 5 ارکان کو ویٹو پاور حاصل ہے۔ اس وجہ سے اقوام متحدہ اپنے دعوے کے مطابق دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات کی تباہ کاری آج کا انکشاف نہیں ہے۔ ماحولیاتی تباہی کا سبب صنعتی ترقی ہے جس کی وجہ ایندھن کا استعمال ہے، جس نے زمین پر موجود خالق کائنات کے پیدا کردہ توازن کے بر خلاف کام کیا ہے۔ خالق کائنات کے بیان کے مطابق انسانوں نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے برو بحر میں فساد پیدا کردیا ہے۔ خالق کائنات نے حکم دیا ہے کہ میزان میں خلل نہ ڈالو لیکن سائنسی و ٹیکنالوجیکل علوم کو سرمایہ پرستوں نے اپنی ہوسِ دولت کے لیے استعمال کیا ہے جس نے زمین و آسمان میں فساد پیدا کردیا۔ دوعشرے قبل ہی ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پوری دنیا کو سیلاب اور خشک سالی کا بیک وقت سامنا کرنا پڑے گا۔ کہیں بارشیں زیادہ ہوں گی گلیشیر پگھلنے کی وجہ سے دریائوں میں سیلاب آئے گا اور کچھ خطے خشک سالی کا شکار ہوں گے۔ پاکستان میں بارش اور سیلاب ہے۔ جب کہ افریقا اور لاطینی امریکا کے بعض خطے خشک سالی کا شکار ہیں۔ وزیراعظم پاکستان بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود ہیں۔ ان کی دنیا بھر کے قائدین اور رہنمائوں سے ملاقات ہورہی ہے۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب میں پاکستان کو درپیش خطرات کا ذکر کردیا ہے، یہ ان کے پاس موقع ہے کہ وہ عالمی برادری کے سامنے پاکستان سمیت ترقی پزیر دنیا کا مقدمہ اٹھائیں اور اس تحریک کو قوت فراہم کریں۔