نقطہ نظر

1395

کراچی کا یزید
جب کراچی پر کوئی نئی زیادتی ہوتی نظر آتی ہے دل بے چین ہو جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یتیم شہر کی کس کس پریشانی پر قلم اٹھایا جائے۔ کیا ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کرکے بیمار ہوتے عوام پر؟ جی ہاں ایک سروے کے مطابق کراچی کے نوجوان پورے ملک کی نسبت سب سے زیادہ کمر درد کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ یہ نوجوان روزانہ ان بد حال سڑکوں پر اسکوٹروں پر تلاش معاش کے لیے نکلتے ہیں اور کمر کے درد میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ جہاں ایک طرف موٹر سائیکل سواروں کے لیے پٹرول مہنگے سے مہنگا ہو رہا ہے وہیں ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر اسکوٹر کا ٹائر پنکچر ہونا معمول بنتا جا رہا ہے جو ان غریبوں کے لیے بالکل اضافی خرچہ ہے۔ مگر کیا کیا جائے کراچی میں رہنا ہے تو ان سب باتوں کی عادت تو ڈالنی ہی ہوگی کیونکہ کراچی کو حق دلانے کے دعوے دار عوام کو بے وقوف کر خود لندن شفٹ ہو گئے۔
جب کراچی کے لیے لکھتی ہوں تو بات ہمیشہ کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے مسائل ہی اتنے ہیں کہ ایک پر لکھنے بیٹھو تو دوسرا یاد آجاتا ہے۔ تازہ مسئلہ کراچی کے اس یزید کے بارے میں ہے جو کراچی کے عوام پر ہر تیسرے دن کوئی نہ کوئی تیر برساتا ہے اور بے بس عوام بلبلا اٹھتے ہیں۔ جی ہاں میں بات کر رہی ہوں کے الیکٹرک کی، دل تو چاہتا ہے اس ادارے کا نام کے الیکٹرک کے بجائے کمینی الیکٹرک رکھ دیا جائے، حالیہ بم کراچی کے عوام پر جو گرایا گیا ہے وہ یہ ہے کچرا اٹھانے کا ٹیکس بھی اب ہر مہینے کے بل میں لگ کر آیا کرے گا۔ یعنی اب بلدیہ کے نظر نہ آنے والے عملے کی تنخواہ ہم سے بجلی کے بلوں میں اضافی دو سو روپے سے لی جائے گی۔
ارے ظالموں جو عملہ اپنی ڈیوٹی پر آتا ہی نہیں گھر بیٹھے کی تنخواہ کھا رہا ہے ان کی تنخواہ اب ہمارے بجلی کے بلوں کے ذریعے کاٹی جائے گی یہ کراچی کے عوام پر ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ المیہ تو یہ ہے کہ کراچی کے عوام اپنی فریاد کس کے پاس لے کر جائیں؟ کون ہے جو اس ظالم سے اس ظلم کا حساب لے، کہاں سے لائیں ہم وہ حسین جو اس یزید وقت سے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جائے یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ کراچی میں برسوں سے حکومت کرنے والی جماعت کے وزیر اعلیٰ سندھ سے پر زور اپیل ہے کہ کے الیکٹرک کے بل میں سے اس فضول بے معنی اضافی بل کو فی الفور ختم کیا جائے۔
نزہت ریاض، کراچی
دنیا کی زندگی جنت بن سکتی ہے
دنیا کی زندگی جنت بن سکتی ہے۔ اگر ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر تقویٰ کی آب یاری کریں۔ رزق حلال کمانے والے کی دل جوئی کریں اور اس پر تعیشات کا بوجھ نہ ڈالیں بلکہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں۔ ہمیں چاہیے کہ اسراف اور تبذیر سے بچتے ہوئے سادگی اور سلیقے کا طرز عمل اپنائیں۔ ہمیشہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھ کر شکر گزاری کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ شکر گزاری سے اللہ تعالیٰ رزق میں اضافہ کرتے ہیں۔ خود قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اگر تم شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘۔ (ابراہیم: 7:14) ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کی شکر گزاری کریں، شوہر کی شکر گزار بنیں، ماں باپ کی خدمت اور شکرگزاری کا حق ادا کریں یہی زندگی کی برکات کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ لیکن ناشکری کفر کے مترادف ہے اور اللہ کے عذاب کو دعوت دینے والی چیز ہے ناشکری دلوں میں حسرت پیدا کر دیتی ہے اور حسرت نامکمل تمنائیں پیدا کر دیتی اور ہمارے دلوں کو روگ لگا دیتی ہے اور زندگی کو ہماری اجیرن بنا دیتی ہے ہمیں حلال پر قناعت کے لیے شکر کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ شکر گزاری کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے ہر روز فجر کے وقت یا سونے سے قبل اپنی تمام نعمتوں کی فہرست اپنے دل میں گنے جو ہمارے پاس موجود ہیں جوہمارے گھر اور بچوں کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ تب ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ نے ہمیں کیا کچھ دے رکھا ہے اور ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھیں جنہیں اللہ نے وہ نعمتیں بھی نہیں دی جو ہمیں میسر ہیں۔ کبھی کوڑے کے ڈھیر سے کھانے کی اشیاء بچوں کو اٹھاتے دیکھیں۔ خیموں اور چھپروں میں رہتے خاندانوں کو دیکھیں۔ ریڑھی پر سامان لاد کر آئے دن سفر کرنے والے خانہ بدوشوں کو دیکھیں۔ سردی میں فٹ پاتھوں پر سوئے ہوئے مزدوروں کو دیکھیں اور پھر ان نعمتوں کا جائزہ لیں جو ہمیں میسر ہیں کبھی کبھی خاندان کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور نعمتوں کی تذکیر کرکے اللہ کا شکر ادا کریں تو تمام مشکل حالات سے مقابلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ شکر کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اپنے آپ میں ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ حلال پر قناعت نصیب ہو جاتی ہے اور زندگی کی برکات نصیب ہو جاتی ہیں یہی دنیا کی زندگی جنت بن جاتی ہے۔ ارم نفیس، ناظم آباد کراچی