متاثرین تک امداد کیوں نہیں پہنچ رہی

458

ملک بھر میں سیلاب متاثرین کے لیے امدادی رقوم جمع ہو رہی ہیں الخدمت اور بہت سی رضا کار تنظیمیں خوراک، لباس، دوائیں پانی وغیرہ پہنچا رہی ہیں مختلف ممالک نے کروڑوں ڈالر کی امداد دے دی ہے اور کروڑوں ڈالر کا وعدہ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے متاثرین کو 30 ارب دے دیے ہیں۔ اگر متاثرین کی تعداد کو مدنظر رکھیں تو یہ فی فرد دس روپے بنتی ہے جب کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ فی خاندان 25 ہزار روپے دیے گئے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی یورپی یونین وغیرہ نے بھی امداد کے اعلانات کیے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک سے آئے دن سامان پہنچ رہا ہے۔ لیکن ایک عجیب صورت حال ہے تقریبا تمام سیلاب زدہ علاقوں میں تباہی پھیلی ہوئی ہے جابجا مختلف امراض پھیل رہے ہیں خوراک اور ادویات کی قلت ہے۔ عورتیں اور بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اگر حکومت اور مختلف ملکوں کی امدادی رقم کو جمع کیا جائے تو اب تک متاثرین کو دوائوں، رہائش اور خوراک کی سہولتیں مل چکی ہوتیں۔ اب تو پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے دیگر کام چھوڑ کر سیلاب زدگان کی مدد کو دوڑ پڑے اور چین کا دورہ کیا جہاں سے 500 ملین یوآن کی ہنگامی امداد کا اعلان کر دیا۔ جو تقریبا 17 ارب روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ عمران خان بھی دس ارب سے زیادہ جمع کرنے کا دعویٰ کر چکے غیر سرکاری این جی اوز تو ہر ہفتے اپنی تمام کارکردگی عوام کے سامنے لاتی رہتی ہیں لیکن جو ملکی اور غیرملکی امداد آرہی ہے اور جتنے اعلانات ہو رہے ہیں اس اعتبار سے متاثرین کی داد رسی نہیں ہو رہی۔ بارش ختم ہوئے کئی دن ہو چکے لیکن سیکڑوں دیہات سے پانی کی نکاسی شروع ہی نہیں ہوئی۔ اس صورت حال کے اسباب پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے توجہ دلائی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے کوئی میکنیزم ہی نہیں بنایا ہے۔ ترجیحات کا تعین نہیں کیا گیا پورے ملک میں وزیراعظم وزرائے اعلیٰ اور دیگر حکام نے دورے کیے ہیں لیکن بے ہنگم طریقے سے صرف فوٹو سیشن کے بعد حکام واپس چلے جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان سیلاب فنڈ پر بھی جھگڑا چل رہا ہے۔ سراج الحق نے سیلاب زدہ علاقوں میں نقصان کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور متاثرین کی بحالی اور امدادی کاموں کی نگرانی کے لیے نگراں گروپ تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ سرکاری امدادی تقسیم میں گڑبڑ کے کئی شواہد سامنے آنے پر انہوں نے تحصیل کی سطح پر آزاد کمیٹیاں تشکیل دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی سندھ نے سیلاب فنڈ میں خوردبرد پر جمعہ کو احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ یہ تو ملک کے اندر کی صورت حال ہے بیرون ملک سے کئی اداروں اور ملکوں نے بہت واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ جو امداد ہم دے رہے ہیں وہ متاثرین تک ضرور پہنچنی چاہیے۔ لیکن کیا امداد واقعی لوگوں تک پہنچ رہی ہے در حقیقت حالت یہ ہے کہ متاثرہ علاقوں میں لوگ امداد کو ترس رہے ہیں۔ جہاں جہاں نجی رضاکار تنظیمیں پہنچ رہی ہیں وہیں پر کام ٹھیک ہو رہا ہے۔ سرکار پر ہرجانب سے شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ عمران خان چونکہ سابق وزیراعظم بھی ہیں اور ان کی جانب سے بہت بھاری رقوم جمع ہونے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن انہیں چاہیے کہ بیرون ملک پاکستانیوں سے حاصل ہونے والی رقوم درست طریقے سے خرچ کریں۔وہ سیلاب فنڈ کو زرداری کا تختہ الٹنے کے لیے استعمال کا عندیہ دے چکے ہیں ان کے بارے میں بھی شبہات ہیں کہ وہ جلسوں پر رقم خرچ کر رہے ہیں عمران خان کی طرح دیگر رضا کار ادارے اور حکومت سب کو تمام سیلاب زدہ علاقوں میں ایک ایک دو دو یا اگر اس سے زیادہ وسعت ہے و زیادہ دیہات منتخب کر کے وہاں کی آبادی کو سیلاب سے محفوظ جگہ پر مکانات، اسپتال، مسجد، اسکول اور بازار وغیرہ بنا کر ماڈل دیہات تعمیر کرنا شروع کر دینے چاہیں۔ اس سے ان کو مزید فنڈ ملیں گے۔اعلانات تو روز ہو رہے ہیں لیکن یہ اعلانات ہی ہیں یا کچھ رقم آئی ہے۔ این ڈی ایم اے ہلاکتوں اور نقصانات کی اطلاع تو دے رہا ہے اسے یہ بھی بتانا چاہیے کہ کتنی رقوم کا اعلان ہوا ہے اور کتنی وصول ہوئی ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والا سامان متاثرین تک پہنچ رہا ہے یا بقول سندھ ہائی کورٹ سکھربینچ کہ سامان افسروں کے گھروں میں رکھ دیا گیا ہے۔پاکستانیوں نے یہ منظر پہلے بھی زلزلے کے بعد دیکھا ہے جب اچھا اچھا مال امداد پر مامور سرکاری افسران کے خیموں میں اور متاثرین کو استعمال شدہ چولہے اور بغیر گیس کے چولہے دیے جا رہے تھے ۔ خود پاکستانی ادارے اس بات پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان امدادی رقوم کے بارے میں اپنا اعتبار کھو رہا ہے یہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے ۔