اسٹیبلشمنٹ تو یہی کرے گی

537

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایک مرتبہ پھر متحرک ہوگئی ہے۔ اور جن لوگوں کو یہ اسٹیبلشمنٹ مختلف پارٹیوں اور گروہوں سے توڑ کر پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال رہی تھی اب اسی اسٹیبلشمنٹ سے پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں نے ملاقات کرلی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اس بات پر برہم ہیں۔ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں پارٹی چیئرمین اپنے لوگوں پر سخت برہم ہوئے اور کہا کہ مجھے بائی پاس کرنے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے احتجاج کی کال دینے کا اعلان کیا اور شیریں مزاری کو پارٹی کی پالیسی پر عملدرآمد کا نگراں بنادیا ہے۔ انہوں نے پارٹی کے کورکمیٹی ممبران پر غداری کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر مختلف پارٹیوں کے کورکمیٹی ممبر اور اہم رہنما پی ٹی آئی میں شامل ہورہے تھے۔ یقینا جس پارٹی کے لوگ تھے اس کے سربراہ نے بھی یہی کچھ کیا ہوگا۔ غداروں کی نگرانی کے لیے کسی کی ذمے داری لگائی ہوگی لیکن کھیل کھیلنے والوں نے مہرے اِدھر اُدھر سے اُٹھا کر کہیں اور فٹ کردیے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس گندے کھیل کے ذریعے اپنی مرضی کی حکومتیں تو لے آتی ہے لیکن اس کا سارا نقصان ملک کو ہوتا ہے۔ طرح طرح کے تجربے کرکے دیکھ لیے ملک کو سنبھالنے والا کوئی انتخاب ان کی نظروں میں سجا ہی نہیں، سارے لوگ اپنے مطلب کے لائے جاتے ہیں، اور وہ ملک کا جو حال کرتے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ پہلے کئی عشرے پی پی اور مسلم لیگ کے درمیان کھیل میں لگادیے اور اب ان دونوں کو ایک کرکے پی ٹی آئی سے بھڑا دیا گیا۔ عمران خان صاحب کا کہنا بجا ہے کہ مجھے بائی پاس نہ کیا جائے۔ یہی بیماری تو ہے جو لوگوں کو ملک کا وفادار نہیں بننے دیتی۔ یہی شکوہ ہر وہ پارٹی کرتی ہے کہ اس کے لیڈر کو بائی پاس کیا جارہا ہے، جس کے ہاتھ سے اقتدار بھینا جاتا ہے۔ آج پی ڈی ایم والے بڑے خوش ہیں کہ پی ٹی آئی کے لوٹے ان کی طرف لڑھک رہے ہیں اور کل جب یہی کچھ اس کے ساتھ ہوگا تو تکلیف ہوگی۔ عوام کہیں سے بھی ایک مرتبہ شروع کردیں خواہ پی ٹی آئی کے لیے شروع کردیں کہ اب جس نے بھی پارٹی پالیسی سے دھوکا کیا اس کو کسی بھی گروپ میں شامل ہو کر الیکشن میں آنے پر بھی ووٹ نہیں دیں گے۔ ایسے لوگوں کے گھروں کا محاصرہ کیا جائے، ان سے کاروبار نہ کیا جائے، جو شخص اپنی پارٹی کا وفادار نہیں وہ کاروبار میں کیسے دیانت داری کرے گا۔ عمران خان نے احتجاج کی کال دینے کا اعلان کیا ہے انہیں یاد ہوگا کہ وہ سونامی لے کر اسلام آباد پہنچنے والے تھے لیکن سونامی کی لہریں اسلام آباد پہنچنے تک خاص کمزور ہوچکی تھیں۔ اب پلوں کے نیچے سے کافی پانی نکل چکا ہے اور اب تو ان کی پارٹی کی کورکمیٹی میں دراڑ پڑ رہی ہے اب وہ احتجاج کی کال دے کر کارکنوں کو امتحان میں نہ ڈالیں اور جتنا وقت انتخابات میں باقی ہے اس کو انتخابی تیاریوں میں لگائیں، پارٹی صفوں سے غداروں کو نکالیں اور اپنی غلطیوں کاجائزہ لے کر قوم کے سامنے اعتراف کریں آئندہ نہ کرنے کا عہد کریں۔ پھر انتخابات میں اُتریں۔ یہی مشورہ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے ہے، وہ اپنی صفوںکو مضبوط کریں اپنے لوگوں کو پارٹی اور اس سے بڑھ کر اللہ اور اس کے احکامات کا پابند بنائیں۔ ایک مرتبہ سیاسی جماعتیں لوٹا کریسی کو شکست دے دیں تو اسٹیبلشمنٹ کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ لیکن مسئلہ یہی ہے کہ یہ پارٹیاں اپنے چھوٹے سے مفاد کی خاطر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ عمران خان بھی شکوہ کرنے کے بجائے پارٹی کی صفوں کو مضبوط کریں۔ یہ کہنا زیادہ غلط نہیں ہوگا کہ پی ڈی ایم کے رہنما وزیراعظم شہباز شریف کی لندن پرواز بھی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر ہی ہوئی ہے۔ لندن سے جو بیان آیا ہے دراصل وہ پی ٹی آئی چیئرمین کی کورکمیٹی والے معاملے سے براہ راست متعلق ہے۔ ایک طرف وہ کورکمیٹی میں فوری الیکشن کی بات کررہے ہیں اور دوسری طرف لندن سے اعلان آیا ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں گے، دبائو قبول نہیں کریں گے۔ گویا ایک طرف کورکمیٹی کے ممبروں کو خریدا جارہا ہے تو دوسری طرف حکومت کو تھپکی دی جارہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ جو کھیل کھیل رہی ہے اس کو اس سے روکنے کا یہی طریقہ ہے کہ پارٹیاں اپنی صفوں کو مضبوط کریں اور متناسب نمائندگی پر انتخابات کرائیں۔ یہ نظام اپنالیں تو لوٹا کریسی ختم ہوجائے گی۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کسی سے بھی خفیہ ملاقاتیں کرلے پارٹی اس سے زیادہ مضبوط ہوگی۔ لیکن کیا عمران خان، نواز شریف، بلاول زرداری، مولانا فضل الرحمن یہ کرنے کو تیار ہوں گے؟ یہ بڑا سوال ہے، ان کے لوگ اپنے رہنمائوں سے اس کا جواب مانگیں۔