!!!احتساب کا جنازہ

300

اب اس امر میں کوئی شبہہ نہیں رہ گیا کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی سب ایک ہی چیز ہیں۔ تبدیلی کے نعرے پر لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ اب سب کے لیے قانون یکساں ہوگا، اب ملک میں دو قانون نہیں چلیں گے۔ لیکن جب تبدیلی کے چار سال گزرے تو پتا چلا کہ کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ چار سال تک نیب، ایف آئی اے اور دیگر ادارے حکومت کے سیاسی مخالفین کا گھیرا تنگ کرتے رہے اور جب پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) اپنے مفاد کے تحت ایک ہوگئے اور انہوں نے طفیلیوں کی مدد سے پی ٹی آئی کا تختہ الٹا تو کسی اصلاح کے بجائے وہ پھر اپنی پرانی ڈگر پر آگئے۔ پہلے پی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف مقدمات بنائے، ذرا سی غلطی پر غداری، ملک دشمنی اور ریاست سے بغاوت کے مقدمات درج کرادیے گئے۔ عدالتوں میں ان کو بھی اسی طرح گھسیٹا گیا۔ اب جب کہ عمران خان، فواد چودھری، شہباز گل اور دیگر ضمانتوں، عدالتی پیشیوں وغیرہ کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں، پی ڈی ایم نے اپنے مقدمات ختم کرانے شروع کردیے۔ چناں چہ نئی نیب ترامیم بروئے کار لائی گئیں اور وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز، یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف سمیت دیگر 50 ریفرنس واپس لے لیے گئے۔ ان میں رمضان شوگر ملز، رینٹل پاور، یونیورسل سپورٹ فنڈ سمیت مضاربہ اسکینڈل اور کمپنیز فراڈ کے ریفرنسز بھی شامل ہیں۔ فائدہ اٹھانے والوں میں سلیم مانڈوی والا، سابق وزیراعلیٰ سرحد سردار مہتاب، پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد اور کئی اہم رہنما شامل ہیں۔ اس فیصلے پر پی ٹی آئی والے تنقید کررہے ہیں اور ان کی تنقید بھی وہی ہے جو پی ٹی آئی کے ایسے فیصلوں پر ان کے سیاسی مخالفین کیا کرتے تھے۔ پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے ملک میں احتساب کا جنازہ نکل گیا ہے۔ دوہزار چار سو ارب روپے لوٹنے والوں کو معاف کیا گیا۔ اب وہ عمران خان کی وکالت پر مامور ہیں اس لیے انہوں نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں اتنے اتوار بازار نہیں ہیں جتنے عمران خان کے خلاف مقدمات ہیں۔ بجا فرمایا ایسا ہی ہے۔ دراصل حکمرانوں نے قانون کو ہمیشہ گھر کی لونڈی سمجھا اور اس کے ساتھ سلوک بھی ویسا ہی کیا۔ یہ اتوار بازار پی ڈی ایم نے پہلی مرتبہ نہیں لگایا۔ پہلے اس پی ڈی ایم کی جماعتیں جب الگ الگ تھیں تو یہ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کا اتوار بازار لگاتی تھیں، پھر پی ٹی آئی نے ان کے خلاف ایسا ہی اتوار بازار لگایا۔ طویل عرصے تک مقتدر طاقتوں کی آنکھ کے تارے میاں نواز شریف جب ان کی نظروں سے گرے تو ان کے خلاف اس مقدمات کے اتوار بازار میں مارکیٹ کی نئی اصطلاح بھی استعمال کی گئی۔ یعنی بائی ون گیٹ ٹو فری، ایک خریدو اور دو مفت… ابھی عمران خان کے خلاف صرف اتنا ہوا ہے کہ مقدمات درج ہورہے ہیں، درحقیقت اتوار بازار بھی نہیں لگا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کے خلاف بھی یہ اسکیم جاری ہوجائے گی۔ بابر اعوان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ احتساب کا جنازہ نکل گیا۔ لیکن یہ جنازہ پہلی مرتبہ نہیں نکلا ہے۔ یہ بار بار نکلا اور بار بار احتساب کے مردے کا مثلہ کیا گیا اب ملک کے نظام عدل کی لاش سے سڑاند پھیلنے لگی ہے، عدالتوں اور احتساب کے اداروں میں بڑے سیاسی مقدمات کی شنوائی بھی ہوتی ہے اور کسی کی آنکھ کے تارے کے حق میں فیصلہ بھی ہوجاتا ہے۔ عام لوگ دو دو تین تین عشروں تک عدالتوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ احتساب کا جنازہ اس وجہ سے بھی نکلا ہے کہ مقدمے کو فیصل ہونے کے لیے چار سال بہت ہوتے ہیں جب کہ ان لوگوں کے خلاف فضا تو 20 سال سے بنائی جارہی تھی۔ اگر ان کو سزا ہوجاتی تو آج عمران خان کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اور عمران خان، آصف زرداری، نواز و شہباز دیگر لوگ ایسے دن بار بار بھی دیکھ لیں تو کیا فرق پڑے گا ان سب کے اس رویے کی وجہ سے قوم کو جو دن دیکھنے پڑے ہیں اس کا حساب تو ایک نہ ایک دن ان کو دینا ہوگا جب اللہ کی عدالت لگے گی جس میں نہ اتوار بازار لگے گا نہ کسی کے ساتھ رتی بھر زیادتی ہوگی۔ اب بھی عوام ان حکمرانوں کی روش کا جائزہ لے لیں تو درست فیصلہ کرسکیں گے ورنہ یہ ٹولہ تو ملک اور عوام کو اسی طرح دھوکا دیتا رہے گا۔ کیا احتساب کا جنازہ اس وقت نہیں نکلا تھا جب چار سال تک صرف چور چور، ڈاکو ڈاکو کے نعرے گونج رہے تھے اور مقدمات ثابت نہیں ہو رہے تھے ۔