کامیابی کی کلید

380

کامیاب شخصیات میں یہ قدر مشترک پائی جاتی ہے کہ کچھ کرنے سے پہلے اپنے عمل کے رد عمل پر غور کرتی ہیں اگر رد عمل، عمل سے ہم آہنگ نہ ہو تو رد عمل کو عمل میں ڈھالنے کے لیے سوچ بچار کرتی ہیں اور جب یہ عمل اجتماعیت کا روپ دھارتا ہے تو قوم کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ ہمارا قومی المیہ یہی ہے کہ حکمران طبقہ عمل کرنے سے پہلے غور کرتا ہے نہ عمل کرنے کے بعد سوچتا ہے۔ گزشتہ دنوںایک کانفرنس میں پاکستان کو بھی شامل ہونا تھا مگر بھارت کو پاکستان کی شمولیت قبول نہ تھی اس نے کانفرنس منعقد کرانے والوں کو کہا اگر پاکستان کی شمولیت ضروری ہے تو اسے شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بھارت کی شمولیت اس لیے ضروری تھی کہ وہ جدید ٹیکنالوجی اور انتہائی مطلوبہ مصنوعات تیار کرنے والا ایک بڑا ملک ہے اس وجہ نے اسے اہم بنا دیا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ چین نے بھی اس معاملے میں بھارت کا ساتھ دیا اور اپنی اہمیت کو بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا، بھارت کے عمل پر چین نے جس رد عمل کا اظہار کیا ہے پاکستان کے لیے بہت اہم ہے حکمران اور دانشور طبقہ پاک چین دوستی کو ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہرا کہتے نہیں تھکتا مگر یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ دوستی کے کچھ آداب ہوتے ہیں کچھ تقاضے ہوتے ہیں ان آداب اور تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو دوستی حالات کے تابع ہو جاتی ہے چین اور بھارت کے مابین بہت سے تنازعات مگر وہ اپنے تنازعات کو قومی مفادات کے درمیان آنے نہیں دیتے چین اور بھارت کے درمیان اربوں روپے کی تجارت ہو رہی ہے مگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کو حب الوطنی کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
ہم نے انھی کالموں میں کہا تھا کہ پاک چین دوستی ایک ہاتھ سے بجنے والی تالی ہے جتنی بھی کوشش کی جائے ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی ایک ہاتھ سے صرف رانیں اور بغلیں پیٹی جاتی ہیں اسی طرح دوستی کبھی یک طرفہ نہیں ہوتی دوستی کا جواب دوستی سے دیا جائے تو دوستی بر قرار رہتی ہے ورنہ موقع پرستی بن جاتی ہے جن دنوں سی پیک کے بارے میں پاک چین دوستی کے گیت گائے جا رہے تھے ہم نے پوچھا تھا کہ معاہدے میں پاکستان کی افرادی قوت کا تناسب کیا ہو گا پاکستان کی افرادی قوت مزدوروں تک محدود رہے گی یا اس سے آگے بڑھے گی؟ چین نے اپنے بہت سے بے روز گاروں کو سی پیک میں کھپا دیا۔ پاکستان کی بے روز گاری ختم نہ ہوئی حکمران اور دانش وروں طبقے نے ہونٹ سی لیے یہ پہلا موقع نہیں کہ چین نے بھارت کو اہمیت دی اور ہمالہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی کو شناسائی تک محدود رکھا مگر حکمران اور دانش ور طبقے نے اس گریز کی اہمیت پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔
یہ کیسی خارجہ پالیسی ہے ہم امریکا سے دوستی کے لیے اس کی ہر فرمائش پوری کرنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں مگر بھارت کے معاملے میں مساوات کا فارمولا یاد آجاتا ہے حکمران اور دانشور طبقہ یہ رٹ لگانے لگتا ہے کہ ہم بھارت سے دوستی کرنا چاہتے ہیں مگر یہ دوستی برابری کے اصول پر ہونا چاہیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھارت سے کسی بنیاد پر برابری کی سطح پر دوستی کے خواہش مند ہیں حالانکہ ہم کسی بھی معاملے میں بھارت کے برابر نہیں پاکستان کی آبادی تقریباً بائیس کروڑ ہے اور بھارت کی آبادی ایک ارب بائیس کروڑ ہے گویا بھارت کی آبادی پاکستان کی آبادی سے ایک ارب سے زائد ہے یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو برابری کے تعلقات میں مانع ہے علاوہ ازین بھارت کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور مطلوبہ مصنوعات بنانے والا ایک ایسا ملک ہے جو جدید ٹیکنالوجی کی مصنوعات کے بارے میں بڑے ممالک کی ضروریات پوری کرتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ایک ایسا طبقہ ہم پر مسلط ہو گیا یا مسلط کر دیا گیا جو اپنی مطلوبہ ضروریات کو پورا کرنے والا ملک کا سب سے بڑا گروہ بن گیا ہمیں یاد ہے پولی ٹیکنیک کے تعلیمی نظام کو قائم کیا تھا تو دانشور طبقے نے بہت مخالفت کی تھی جو مخالفت برائے مخالفت کی بد ترین مثال ہے کہا جاتا تھا کہ پولی ٹیکنیک کے تعلیمی ادارے کھولنا قومی خزانے کو تباہ کرنے کی سازش ہے کسی بھی حکومت کوکوئی ایسا منصوبہ نہیں بنانا چاہیے جو پانچ سال تک مکمل نہ ہو سکے کیونکہ آنے والی حکومت اسے ختم کر سکتی ہے اس مد میں لگائی جانے والی رقم ضائع ہو جائے گی گویا حکومت کو قوم و ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی منصوبہ نہیں بنانا چاہیے حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی مبصر نے مذکورہ بے ہودہ خیال کی مذمت نہیں کی آج پورے ملک میں پولی ٹیکنک کالج کام کر رہے ہیں اس وقت بیرونی ممالک خاص کر عرب امارات میں جو انجینئر کام کر رہے ہیں وہ پولی ٹیکنیک کالجوں کے طفیل ہی ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں اگر ٹیکنالوجی تعلیم کو عام نہ ہوتی تو ہمار ی افرادی قوت بٹھل اور اینٹیں اٹھانے تک محدود رہتی ہے اگر پولی ٹیکنیک کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی مطلوبہ مصنوعات بنانے والے ممالک میں شامل ہوتا تو دنیا پاکستان کو بھی اہمیت دیتی مگر المیہ یہی ہے کہ حکمران طبقہ ہمیشہ اہمیت کا نہیں بھیک کا طلب گار رہتا ہے اور یہ ایک عام فہم بات ہے کہ بھکاریوں کو اہمیت نہیں بھیک دی جاتی ہے۔