لاپتہ افراد بازیابی کیس : وزیراعظم شہباز شریف اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش

299

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق کیس میں عدالت کے روبرو پیش ہوگئے.

نجی ٹی وی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔ اس موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیر اعظم کو روسٹرم پر بلایا۔چیف جسٹس نے شہباز شریف سے مکالمے میں کہا کہ اس عدالت نے آپ کو تکلیف اسی لیے دی کیونکہ ایک بہت بڑامسئلہ ہے۔یہ کیس بہت عرصے سے چلتا آرہاہے، آپ کو اس لیے عدالت آنے کی تکلیف دی کہ اس مسئلے کاحل نکالاجائے۔ عدالت نے کہا کہ ایک چیف ایگزیکٹو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ لوگوں کو اٹھایا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آئینی عدالت ہے اورسویلین بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ریاست کے اندر ریاست نہیں ہوسکتی۔ ہمارے پاس کیس ہے دو بھائیوں کو اسلام آباد سے پولیس یونیفارم میں لوگوں نے اٹھا لیا۔ یہ کوئی دور کی بات نہیں۔ انہیں وفاقی دارالحکومت سے اٹھایا گیا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس عدالت نے اس معاملے کوکئی باروفاقی کابینہ کوبھیجا، آپ کو معاملہ بھیجاآپ نے کمیٹی بنائی، وزیر اعظم صاحب یہ معاملہ کمیٹی کا نہیں ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اس سے بڑا ایشو اور کوئی نہیں ۔سیاستدانوں نے ملکراس مسئلے کا حل نکالناہے۔اس عدالت نے مناسب سمجھا کہ آپ کو بتایا جائے کہ مسئلہ کیا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کے لیے کمیشن بنا مگراس کاطریقہ کاربڑاپریشان کن ہے۔لاپتا افراد کمیشن کی سماعتوں سےان خاندانوں کے دکھوں میں اضافہ ہوا۔ان لوگوں کوچاہیے تھا کہ ان میں سے کوئی اس عدالت نہ آتا۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہرایک کے گھر خود جاتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ یہاں پر لوگ بازیاب ہوئے مگر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ میرے خیال میں اس سے بڑا کوئی بھی ایشونہیں ہے۔ جتنے نیشنل سکیورٹی مسائل ہیں،اتنے ہی ہر شہری کے ہیں۔ شہری یہ کیوں محسوس کرے کہ ریاست ہی تحفظ نہیں کررہی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹوکاکام ہے کہ شہریوں کاتحفظ یقینی بنائے۔ٹارچر کی سب سے بڑی قسم شہریوں کا لاپتا ہوناہے۔یا تو آپ کو کہنا پڑے گا کہ آئین اپنی حالت میں بحال نہیں، اگر یہ بات ہے کہ تو پھر اس عدالت کو کسی اور کو بلانا پڑے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہے۔اس عدالت کو اچھا نہیں لگتا کہ منتخب وزیراعظم کو بلائے ۔ گورننس کے مسائل تب حل ہوں گے جب آئین اپنی حالت میں بحال ہو۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جس چیف ایگزیکٹو کی آپ بات کر رہے ہیں وہ ملک کا ڈکٹیٹر تھا۔ میں اور میرا بھائی اس شخص کے متاثرین میں سے ہیں۔اس چیف ایگزیکٹو کے دور میں ہمیں ملک بدری میں رہنا پڑا۔یہ ملک اس شخص کی وجہ سے بہت متاثر ہوا۔دوران سماعت وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ ،اٹارنی جنرل بھی عدالت پیش ہوئے ۔

عدالت نے کہا کہ اس عدالت کا آپ پر اعتمادہے کہ آپ اس کاحل بتائیں، ایک چھوٹابچہ اس عدالت آتاہے، یہ عدالت اسے کیا دے۔بدقسمتی سے اس بچے کو پچھلے وزیر اعظم کے پاس بھیجا مگر کچھ نہیں ہوا۔وزیر اعظم صاحب آپ اس مسئلے کاحل بتائیں کہ یہ عدالت کیا کرے۔یہ ریاست کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ ایشوز ہوں گے لیکن ان کا حل پارلیمنٹ اور چیف ایگزیکٹو نے کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت یقینی بنائے گی کہ سویلین بالادستی کی آئین کی منشا پر عملدرآمد ہو۔ آئین کو نافذ کرنا ایگزیکٹو کی ذمہ داری ہے۔اگر آئین کی منشا پر عمل نہیں ہوتا تو سب کچھ پیک کر کے گھر جانا چاہیے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کمیشن سے متعلق جو باتیں کہیں وہ تکلیف دہ ہیں۔ معاملات کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں ان پر قانون سازی کریں۔بھارت نے یہی کیا دیگر ممالک نے بھی یہی کیا۔ لوگوں کو لاپتا کرنا ناقابل برداشت ہے۔عدالت پھر چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائے گی۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس عدالت کے سامنے بلوچ طلبہ کی شکایات آتی ہیں ان کو نسلی امتیاز کا شکار بنایا جارہا ہے۔ بلوچ طلبہ پاکستان کا مستقبل ہیں۔ وہ ریاست سے غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ اس وفاقی دارالحکومت سے ایک صحافی کو اٹھایا گیا سی سی ٹی وی کی فوٹیجز موجود ہیں انکوائری نہ ہوسکی، کچھ تلخ حقائق ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اب تو ہر تھانے میں ایسی ٹیمیں بن گئی ہیں جو لوگوں کو اٹھا لیتی ہیں۔

اس موقع پر مدثر نارو کی والدہ روسٹرم پر آگئیں۔انہوں نے کہا کہ میں وزیراعظم کو بتانا چاہتی ہوں ہم سے جھوٹے وعدے کیے گئے۔ ہم اپنے بچپن میں فورسز کی گاڑی دیکھ کر احتراما رُک جاتے تھے، میں چاہتی ہوں آنے والی نسلیں بھی اپنے سکیورٹی اداروں کی ایسے ہی عزت کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہی تو ہر حکمران ذمہ دار ہے۔ یہ عدالت آئین کو دیکھے گی اور اسکے بعد ایک فیصلہ دے گی۔  اٹارنی جنرل صاحب اگر آپ تیار ہیں تو آج دلائل دیں پھر عدالت ایک فیصلہ دے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے جس کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ کہتا ہے میں کیا کر سکتا ہوں۔ یہ بہانہ بنایا جاتا ہے کہ میرے پاس تو اختیار ہی نہیں۔ اختیار تو کسی اور کے پاس ہے۔ اگر آپ ذمہ داری نہیں لے سکتے تو پھر اپنا آفس چھوڑ دیں۔ اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ دلائل وہاں دیے جاتے ہیں جہاں اختلاف ہو۔ میں نے وزیر قانون اور وزیر داخلہ نے اس معاملے پر بہت سنجیدگی سے مشاورت کی ہے۔ خدا کی قسم اگر پاکستان نہ ہو تو میں یہاں کھڑا نہ ہوں۔ میں نے اس عدالت سے جا کر اس عدالت کی بنائی کمیٹی کے ممبران کو فون کر کے بات کی۔میں نے اسد عمر کو بھی کال کی۔ صرف چیئرمین سینیٹ کے علاوہ، میں چیئرمین سینیٹ سے ذاتی طور پر ملنے جاؤں گا۔آپ نے وزیراعظم کی ذمہ داری لگائی ہے ہم کام کریں گے۔آپ ہمیں تھوڑا موقع دیں پھر آپ کو شکایت نہیں ہو گی۔ اگر ہم ذمہ داری پوری نہ کر سکے تو میں آ کر کہوں گا کہ میں فیل ہو گیا۔

وزیر قانون نذیر اعظم تارڑ نے کہا کہ یہ اتحادی حکومت ہے اور حکومت کے اتحادیوں کا یہ اپنا مسئلہ ہے۔ اس حکومت نے اس لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ معاملے کی گہرائی تک پہنچ سکیں۔ ہماری کمیٹی کے 7 لوگ جاں فشانی سے کام کر رہے ہیں۔ ہفتہ وار اجلاس منعقد ہورہے ہیں، ہمیں تھوڑا وقت دیں یہ 20 سال پرانا مسئلہ ہے اس میں مائنز بھی ہیں۔ یہ مسئلہ جب بھی حل ہوا ڈائیلاگ سے ہی ہوگا ۔ تقریر ہم کررہے ہیں لیکن گراونڈ پر تلخ حقائق اور بارودی سرنگیں ہیں ۔ آپ نے پارلیمنٹ کو ہمیشہ عزت دی ہے لیکن اس ملک میں پارلیمنٹ سے زیادہ بے توقیری کسی ادارے کی نہیں ہوئی۔

بعد ازاں طلب کرنے پر اسلام آبادہائیکورٹ نے وزیراعظم کو جانے کی اجازت دے دی اور وزیر قانون کی جانب سے اقدامات کے لیے 2 ماہ کی مہلت دینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو لاپتا افراد کیسز پر اقدامات کے لیے مطلوبہ وقت دے دیا۔ عدالت نے لاپتا افراد کیسز کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی۔