معیشت میں درستگی کے اشاریے

429

ڈالر اب اوپن مارکیٹ میں دو سو بارہ روپے کے گرد گھوم رہا ہے۔ جبکہ آئندہ دنوں میں مزید نیچے آنے کے امکانات ہیں۔ یعنی پاکستان کی معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے کے اشارے سامنے آرہے ہیں اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی عملی مدد اور دوست ملکوں کا تعاون ملنے میں کامیابی ہوئی تو صورتحال خاصی بہتر ہوجائے گی۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی سربراہی میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں گندم کی درآمد کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ نے روس سے جی ٹو جی کی بنیاد پر گندم کی فراہمی کی سمری پیش کی جس میں بتایا گیا کہ 28مئی 2022 کو گندم کی درآمد کے لیے وفاقی کابینہ نے ای سی سی کے فیصلے کی توثیق کی تھی۔ اس کے بعد ٹی سی پی نے جی ٹو جی کی بنیاد پر روس سے گندم کی درآمد کا عمل شروع کیا۔ 8جون 2022 کو ایم او یو پر دستخط ہوئے، ابتدائی طور پر روسی حکومت نے گندم کی قیمت 410 ڈالر فی میٹرک ٹن پیش کی، درآمدی گندم کی قیمت کے معاملے پر روسی سفارتخانے کے ساتھ بات چیت کے لیے وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ طارق فاطمی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، روسی وفد نے وزیر تجارت سے ملاقات کی اور گندم کی قیمت میں 405 ڈالر فی میٹرک ٹن تک کمی کی پیشکش کی۔ بعد میں قیمت مزید کم کر کے 400 ڈالر فی میٹرک ٹن کر دی گئی، وزارت تجارت کی تجویز پر وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے روس کی سرکاری کمپنی کی جانب سے 399.50 ڈالر فی میٹرک ٹن کی قیمت پر
ایک لاکھ بیس ہزار مٹرک ٹن گندم کی خریداری کے لیے جی ٹو جی کی بنیاد پر کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی منظوری کے لیے سمری پیش کر دی ہے، ای سی سی کے اجلاس میں دیکھا گیا کہ عالمی منڈی میں گندم کی قیمت میں کمی کا رجحان ہے جو آنے والے دنوں میں مزید کم ہو سکتا ہے اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ روسی فریق کو 390 امریکی ڈالر کی قیمت کی پیشکش کی جا سکتی ہے اور اگر وہ پیشکش قبول نہیں کرتے ہیں تو ٹینڈر منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ معیشت سے متعلق اچھی اطلاعات کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ میں روپے کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی باضابطہ منظوری اور قسط کے اجرا کے بعد اور دوست ممالک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے مالیاتی سپورٹ کے دروازے کھلنے سے ڈالر کی قدر 200 روپے سے بھی نیچے آنے کے امکانات ہیں اور انھی خدشات کے پیش نظر ایکسپورٹرز بھی اپنی زرمبادلہ کی برآمدی آمدنی کو مارکیٹ میں بھنانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ادھر ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ سعودی عرب کے بعد یو اے ای نے بھی پاکستانی کمپنیوں میں پورٹ فولیو انویسٹمنٹ کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ میڈیا نے وزارت خزانہ کے ذرائع کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ ابتدئی طور پر یو اے ای پاکستان کے اقتصادی ومالیاتی اور انویسٹمنٹ سیکٹر کی مختلف کمپنیوں میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ دوسرے مرحلے میں مزید سرمایہ کاری ہوگی، اس اقدام سے ملکی اسٹاک مارکیٹ میں بہتری اور شرح مبادلہ میں استحکام آئے گا، اس کے ساتھ ساتھ ملک میں اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان اور ڈنمارک کے درمیان بھی فریم ورک معاہدے کے مسودے کی تیاری کے لیے آئندہ ہفتے اہم اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ڈنمارک پندرہ سال کی مدت کے لیے پاکستان کو 35 فی صد رعایت پر بلا سود قرضہ فراہم کرے گا۔ وفاقی وزیر نے توانائی، ٹرانسپورٹ، زراعت اور قدرتی وسائل، مالیاتی پالیسی سازی، سمیت دیگر شعبوں میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی کوششوں اور تعاون کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک زرعی اجناس میں ویلیو ایڈڈ اور مضبوط کولڈ چین انڈسٹری جیسے دیگر شعبوں میں بھی پاکستان کو تعاون فراہم کرے۔ یہ بھی اچھی پیش رفت ہے کیونکہ ڈنمارک یورپ کا اہم ملک ہے، اگر وہ پاکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتا ہے تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا ہے کہ کیونکہ اس وقت افراط زر کی شرح 25 کے قریب ہے اور اس بات کے خدشات ہیں کہ شرح سود میں مزید اضافہ ہوگا لیکن حکومت پاکستان محض افراط زر کے تناسب سے شرح سود کا جواز پیش کرنے کے لیے معاشی سست روی کی طرف نہیں جائے گی یعنی فی الحال شرح سود میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ہم نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ 3ہزار روپے فی دکان سے انکم اور سیلزٹیکس عائد کیا جائے لیکن اس معاملے میں کچھ غلطی ہوئی کیونکہ ان دکانوں میں چھوٹے دکاندار بھی شامل کرلیے گئے تھے، پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں گونگ بجاکر کاروبار کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے درآمدات کو کم کیا جس ڈالر کی قیمت کم اور روپے کی قیمت میں اضافہ ہوا، چین سے قرض رول اوور ہوگئے ہیں دیگر ممالک سے بھی قرضے رول اوور ہورہے ہیں۔ شعبہ زراعت اور برآمدات حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں، جلد ہی برآمدی شعبے کے لیے ترغیبی اسکیم متعارف کروا دی جائے گی، رواں سال بجٹ خسارے پر قابو پانے کی حکمت عملی وضح کی گئی ہے کیونکہ پچھلے چار سال میں بجٹ خسارے کی اوسطاً مالیت 3500 ارب روپے رہی ہے، ملک کا ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب 9.2فی صد ہے جسے بہتر بنانا ہے۔ بینکوں کے ایڈوانس ٹو ڈپازٹ تناسب پر اسپیشل ٹیکس سسٹم کو درست کر رہے ہیں اور یہ اسپیشل ٹیکس پچھلے سال سے لاگو نہیں ہوگا، وزیر خزانہ نے کہا کہ گاڑیوں سمیت دیگر غیر ضروری اشیا کی درآمدات پر پابندی عائد کی گئی ہے، پچھلے سال ملک میں 80 ارب ڈالر کی درآمدات اور 40 ارب ڈالر سے زائد کا تجارتی خسارہ ہوا، کوئی بھی ملک اتنے بڑے جاری کھاتوں کے خسارے کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ بہرحال اس کے باوجود معیشت کے حوالے سے اچھی خبروں کا آنا مستقبل میں بہتری کی نوید ضرور کہی جا سکتی ہے۔