جماعت اسلامی کے بڑھتے قدم

718

کراچی میں بلدیاتی انتخابات جو 24 جولائی کو ہونے تھے وہ محکمہ موسمیات کی جانب سے شدید بارشوں کی پیش گوئی پر ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیے گئے اور اب یہ انتخابات 28اگست کو منعقد ہوںگے۔ کراچی جو طویل عرصے سے بنیادی سہولتوں سے محروم ہے اور حکمرانوں کی غفلت، عدم توجہ اور متعصبانہ رویے اور سلوک کی وجہ سے تباہی وبربادی کا شکار ہے۔ جس شہر کے وسائل سے ملک کے معاشی معاملات چلائے جا رہے ہوں اور پورا ملک اس کے وسائل کا محتاج ہو اس شہر کی اس طرح سے بربادی قابل افسوس ہے۔ کراچی جہاں پاکستان کا سب سے بڑا تعلیم یافتہ اور مہذب طبقہ آباد ہے اور ملک کے کونے کونے سے لوگ اپنے روزگار کے حصول کے لیے اس شہر میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا سب سے بڑا شہر آج حکمرانوں کی بے حسی کا شکار ہے۔ اس شہر میں نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی نکاسی ٔ آب کا کوئی نظام، سڑکیں تباہ ہیں۔ پارک اور تفریح گاہیں مکمل طور پر برباد ہوچکی ہیں۔ ایک زمانے میں کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا اور ملک بھر سے لوگ یہاں کی رونقوں اور روشنیوں کو دیکھنے آتے تھے اور پھر روشنیوں کا شہر تاریکیوں میں ڈوب گیا اور غیروں نے نہیں اپنوں نے اس شہر کی مانگ اجاڑی اس کے گلی کوچوں میںجو قہقہے گونجتے تھے وہاں اب خاموشی کا راج ہے۔ کراچی کا نوجوان جو پہلے ہی کوٹا سسٹم کے ظالمانہ نفاذ سے روزگار سے محروم تھا اسے حقوق یا موت کے نعروں میں پھنسا کر موت کی دلدل میں دکھیل دیا گیا۔ 30سے35سال تک لسانیت کی آگ میں جلنے کے بعد اہل کراچی کو ہوش آیا تو اس کی دو نسلیں برباد ہوچکی تھیں۔
شہر میں کسی کی ہمت اور جرأت نہیں کہ وہ نازیوں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا۔ شہر کی ساری سیاسی اور مذہبی جماعتیں کبوتر کی طرح آنکھیں موندے خاموشی اختیار کیے ہوئے تھیں۔ ایسے میں صرف جماعت اسلامی اور اس کے کارکنان ہی تھے جو کلمہ ٔ حق بیان کر رہے تھے اور شہر کی بقاء سلامتی کے لیے اپنی جانوںکی قربانیاں دے رہے تھے اور مشرقی پاکستان کی طرح اپنے شہداء کے جنازے اٹھا کر پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے۔ کسی بھی عروج کو زوال بھی ضرور آتا ہے بالکل اسی طرح طاقت، گھمنڈ اور دہشت کی علامت لسانی تنظیم بھی مکافات عمل کا شکار ہوئی اور اس کو جنم دینے والی قوتوں نے جب اس پر سے ہاتھ اٹھایا تو وہ ریت کے گھروندے کی طرح ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گئی۔ آج یہ صورتحال ہے کہ لانڈھی میں قومی اسمبلی کی نشست کے لیے اس کے امیدوار نے صرف دس ہزار ووٹ حاصل کیے۔ بے شک ایم کیو ایم آج مکافات عمل کا شکار ہے۔ آنے والے بلدیاتی انتخاب میں اسے اپنی واضح شکست نظر آرہی ہے اور وہ چاہے گی کہ ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہ ہوسکے اور کسی بھی طریقے سے یہ انتخابات ملتوی ہو جائیں۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے بارش کی پیش گوئی پر الیکشن کمیشن کی جانب سے 24 جولائی کو منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخاب کے ایک ماہ کے لیے ملتوی کیے جانے پر ایم کیو ایم نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ اب جب کہ جوں جوں 28اگست کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے ایم کیو ایم کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ایک بار پھر وہ بلدیاتی الیکشن ملتوی کرانے کے لیے متحرک ہوگئی ہے۔
شہر میں کیے جانے والی عوامی سروے کے مطابق جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن میئر کراچی کے لیے فیورٹ قرار دیے گئے ہیں اور جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر جماعتوں اور تنظیموں کے افراد کارکنان اور ایک عام آدمی حافظ نعیم الرحمن کی پشت پر کھڑا ہوگیا ہے اور کراچی کا عام آدمی جس کا تعلق کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت یا لسانی گروہ سے ہو وہ جماعت اسلامی کے انتخابی نشان ترازو کو ووٹ دینے کے حق میں ہے اور ’’حل صرف جماعت اسلامی‘‘ کا نعرہ شہر کا ٹرینڈ بن چکا ہے۔ تحریک انصاف کی 2018 کے انتخابات میں ہونے والی کامیابی کا اصل کریڈیٹ ان کی سوشل میڈیا ٹیم کو جاتا ہے جس نے سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلا کر تحریک انصاف کو کامیابی دلوائی اور عمران خان کو پاکستان کا وزیر اعظم منتخب کرایا۔ آج یہی ٹولز اور پاور جماعت اسلامی استعمال کر رہی ہے اور جماعت اسلامی کے میئر کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن دنیا کے سامنے ایک مقبول ترین رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں ان کے ویب ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دیے گئے انٹرویو نے شہر میں ایک ادھم مچا کر رکھا ہوا ہے اور حافظ نعیم الرحمن کی گفتگو کو کراچی کے عوام اپنے دل کی آواز کہہ رہے ہیں۔ حالیہ مون سون کی بارشوں، بجلی کی بدترین لوڈشیدنگ اور شہر کی تباہ حالی نے اب اہل کراچی کے صبر کے پیمانہ کو لبریز کر دیا ہے اور وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے اٹھ کھڑا ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر عوام کی رائے عامہ کے ساتھ ساتھ ہوٹلوں، چائے خانوں، فیکٹریوں، کارخانوں میں عام آدمی کی گفتگو کا محور ومرکز حافظ نعیم الرحمن ہی ہیں اور کراچی کی بدلتی فضا سے قوی امید ہے کہ اب اہل کراچی کی قسمت تبدیل ہونے والی ہے۔ اہل کراچی اپنے شہر کی تعمیر وترقی کے لیے ترازو کو ووٹ دے کر ایک بار پھر اس شہر کو روشینوں کا شہر بنانا چاہتے ہیں۔
شہر کی فضا بتا رہی ہے کہ پیپلز پارٹی ہو یا ایم کیو ایم اب کوئی ترازو کا راستہ نہیں روک سکتا۔ جماعت اسلامی کے جرأت مند، بہادر اور دبنگ امیر کی پشت پر اہل کراچی کھڑے ہوچکے ہیں اور ووٹ کی پرچی کو انہوں نے برچھی میں تبدیل کرلیا ہے۔ 28اگست کا سورج ان شاء اللہ اہل کراچی کے لیے نوید سحر بن کر طلوع ہوگا۔ کراچی اور اہل کراچی نے طویل عرصے سے اس شہر کی تباہی اور بربادی ہی دیکھی ہے لیکن عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کا جانشین حافظ نعیم الرحمن کراچی کے تین کروڑ عوام کے حقوق کا ناصرف یہ کہ تحفظ کرے گا بلکہ ان کے زخموں پر مرحم بھی رکھے گا اور عروس البلاد کراچی کی رفعت اور اس کی عظمت کو کوہ ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند کرے گا اور اس شہر کو پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کا عظیم شہر بنائے گا۔ اہل کراچی کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہر کی ترقی اور خوشحالی کے لیے میدان عمل میں نکلیں اور کراچی کے جیالے سپوت حافظ نعیم الرحمن کے نمائندوں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرائیں اور ترازو کو ووٹ دے کر کراچی سے لسانی سیاست کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیں۔
دوسری جانب وہ قوتیں جنہوں نے ہمیشہ اہل کراچی کے حقوق پر ڈاکا ڈالا ہے۔ حقوق کا نعرہ لگانے والے ہی شہرکے سب بڑے غاصب بن گئے۔ آج ان سب لوگوں کو اپنی دکانیں بند اور اپنی عیاشیاں اور لوٹ مار بھی ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ پیپلز پارٹی جو گزشتہ 14سال سے صوبہ سندھ کے سیاہ وسفید کی مالک ہے۔ کراچی کی تباہی اور بربادی میں سب سے بڑا ہاتھ پیپلز پارٹی ہی کا ہے۔ انہوں نے کراچی کے حق پر ڈاکا مارا اور اس کے وسائل پر قابض ہوئے کراچی کے جعلی ڈومیسائل پر بیرون کراچی کے افراد کو سرکاری ملازمتیں دی گئیں اور کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چنگ چی رکشہ چلانے پر مجبور کیا گیا۔ چاروں طرف کرپشن اور لوٹ مار کا راج قائم ہے۔ ایسے میں جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن کراچی کے مظلوم عوام کی مضبوط آواز بن کر سامنے آئے ہیں اور انہوں نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ الیکشن کمیشن اگر صاف اور شفاف بلدیاتی انتخابات کرانے میں کامیاب ہوگیا تو اہل کراچی کی مرادیں پوری ہوجائے گی اور حافظ نعیم الرحمن عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کے میئر بن جائیں گے۔ آندھی اور طوفان کی طرح چھا جانے والے حافظ نعیم الرحمن کا اب کوئی بھی قوت اور طاقت راستہ نہیں روک سکتی اور جو بھی اس کے راستے میں آنے کی کوشش کرے گا اور رکاوٹ بننے کی کوشش کرے گا اور اس سیلاب اور طوفان میں وہ خود خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گا ان شاء اللہ۔