تشکیل پاکستان کا ایک سبب سقوط خلافت

435

قیام پاکستان کو 75سال ہو چکے ہیں، کئی روز سے سوچ رہا تھا کہ اس موضوع پر کیا لکھا جائے؟ ان پچھتر برسوں میں ہم نے بہ حیثیت قوم کیا کھویا اور کیا پایا، مشرقی پاکستان کھویا اور ایٹم بم پایا، اس موضوع پر اور بھی تفصیل سے بات ہو سکتی ہے لیکن یہ سوچ کر چھوڑ دیا کہ اس پر ہم سے بہتر تحریر آسکتی ہے پھر یہ خیال ہوا کہ تحریک پاکستان کے سلسلے میں ہونے والی جدوجہد بیان کی جائے۔ چونکہ یہ روداد بھی تسلسل کے ساتھ آتی رہتی ہیں اس میں اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے شاید کوئی نئی بات نہ ہو، خیالات کی اسی ادھیڑ بن میں یوم آزادی کا دن بھی آگیا اخبارات میں مضامین بھی شائع ہوئے ایک اخبار نے تو 80صفحات پر سپلمنٹ بھی نکالا جو اصلاً تو بزنس ہے آزادی کے حوالے سے مضامین کے علاوہ اس میں اور عنوانات پر مضامین شائع ہوئے دیگر اخبارات میں بھی 14اگست والے دن کے حوالے سے مضامین شائع ہوئے ہیں۔
میں اسی سوچ میں تھا کہ اچانک اب سے چالیس پینتالیس سال قبل کی جناب محمود اعظم فاروقی کی ایک تقریر یاد آگئی 14اگست کی تاریخ تھی اور رمضان کے دن تھے ہمارے علاقے کا پروگرام تھا اس لیے بعد عصر اتنی حاضری ہوگئی تھی کہ پروگرام بر وقت شروع ہوگیا فاروقی صاحب نے آدھے گھنٹے سے زائد تقریر کی تھی یہ تقریر تحریک پاکستان کے حوالے سے تھی اتنی پرانی تقریر تفصیل سے تو یاد نہیں البتہ اس کا مرکزی نکتہ یاد آگیا جو اوپر عنوان میں دے دیا۔ اس کا مفہوم بھی ذہن میں کچھ کچھ آگیا اس لیے اب جو کچھ بھی لکھوں گا اس میں الفاظ تو ہمارے ہوں گے مفہوم فاروقی صاحب کی تقریر کا ہوگا۔ اتنی پرانی بات کیسے یاد آگئی اس سلسلے میں آپ کو فاروقی صاحب کی ایک بات اور بتاتے چلیں ایک دفعہ ہم اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ان کی عیادت کے لیے ان کے گھر گئے گفتگو اور بات چیت میں، یادداشت اور بھول ہوجانے کے حوالے سے بات ہوئی تو فاروقی صاحب نے کہا کہ جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی جاتی ہے اس کی قریب کی یادداشت کمزور اور دور کی یادداشت مضبوط ہوتی جاتی ہے اسے بچپن کی یہ بات تو خوب یاد رہتی ہے کہ اس نے کس طرح قریب کے باغ میں جا کر آم توڑ کر کھایا تھا پھر چوکیدار نے پیچھا کیا اور ہم بھاگ کر گھر آگئے، قریب کی یاد کا یہ حال ہے کہ وہ کرسی سے اٹھ کر الماری کے پاس گیا لیکن وہاں جاکر بھول جاتا ہے کہ میں الماری سے کیا چیز لینے آیا ہوں پھر وہ واپس جا کر کرسی پر بیٹھ جاتا ہے قریب پڑی ہوئی کتاب کو پڑھنے کے لیے اٹھاتا ہے تو اسے یاد آجاتا ہے کہ وہ الماری سے اپنا چشمہ لینے گیا تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز کی دو دہائیوں میں عیسائیوں اور یہودیوں کے گٹھ جوڑ نے مصر کے خلیفہ شاہ فاروق کے خلاف سازشوں کے جال بننے شروع کیے اس لیے کہ اس نے ارض فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک انچ زمین بھی دینے سے انکار کردیا تھا عربوں کو ترکوں کے خلاف اکسایا گیا عربوں کو ترکوں سے آزادی حاصل کرنے میں بہت زیادہ جدوجہد نہیں کرنا پڑی کہ برطانیہ جو اس وقت اسی طرح کی ایک عالمی طاقت تھا کہ جس طرح آج امریکا، روس اور چین ہیں برصغیر ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک پر برطانیہ کا قبضہ تھا لیکن بھارت سمیت ہر جگہ برطانیہ کے خلاف آزادی کی جدوجہد چل رہی تھی، نو آبادیاتی دور اپنے اختتام کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ یہودیوں کی سازشوں اور برطانیہ کے عیسائیوں کے اتحاد نے انتہائی چالاکی اور عیاری سے عربوں کو ترکی سے آزادی دلا کر انہیں مختلف ریاستوں میں تقسیم کردیا دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ ترکی سے خلافت کا خاتمہ کردیا اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ خلافت کا ادارہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک قسم کا روحانی مرکز ہے اور پوری امت مسلمہ کی اس خلافت علیٰ منہاج النبوہ سے ایک جذباتی وابستگی ہے لہٰذا مرکزی ادارے ہی کو ختم کردیا جائے۔ 1914 میں جب مصر سے شاہ فاروق کی حکومت کو ختم کیا گیا اور خلافت کا سقوط ہوا تو پوری دنیا کے مسلمانوں کے اندر غم واندوہ کی ایک لہر دوڑ گئی لیکن برصغیر کے مسلمانوں میں اس کا بہت زیادہ غم ہوا کہ جیسے ہر گھر میں میت ہو گئی ہو۔
برصغیر کے مسلمانوں میں سقوط خلافت کے غم کی شدت بہت زیادہ ہونے کی دو اہم وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ پوری دنیا کی تمام مسلمانوں کے مقابلے میں برصغیر کے مسلمانوں کا دینی شعور بلند تھا وہ خلافت کو خلفائے راشدین کی ایک نشانی سمجھتے تھے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ خلافت آئندہ کسی بھی موقع پر دنیا کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے، دوسری وجہ یہ تھی کہ برطانیہ جس نے خلافت کے خلاف سازش کی اسی برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندوستان پر قبضہ کیا اور اس کی ساری دولت لوٹ کر لے گئے وہ ہندوستان کو سونے کی چڑیا سمجھتے تھے برصغیر کے باشندوں جن میں ہندو مسلمان دونوں شامل تھے کے دل میں برطانیہ سے یہ نفرت تو پہلے ہی سے چل رہی تھی لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں برطانیہ کے خلاف نفرت کی آگ میں مزید شدت اس وجہ سے بھی ہوئی کہ 1857 کی جنگ آزادی جس میں مسلمانوں کی تعداد اور ان کا جوش و جذبہ سب سے زیادہ تھا وہ تحریک ناکا م ہو گئی تو انگریز سرکار نے تحریک کے مجاہدین کو چن چن کر قتل کرنا شروع کردیا بہت سارے مجاہدین پورے ہندوستان میں مختلف علاقوں میں چھپ گئے کہیں ریاستوں نے انہیں تحفظ فراہم کیا تو کہیں محب وطن بااثرمسلمانوں نے۔ لیکن ہمارے اندر بھی کچھ لوگوں نے ذاتی مفادات کی لالچ میں ان کی مخبری کرنا شروع کردی پھر انگریزوں نے ان مجاہدین کو پکڑ پکڑ کے توپ کے دہانوں پر باندھ کر ان کی لاشوں کے چیتھڑے اڑا دیے بعض مقامات پر تو ظالم انگریز سرکار نے مجاہدین کو ان کے بیوی بچوں سمیت شہید کردیا اس ظلم کو دیکھ کر عام مسلمانوں کے دل انگریزوں کے خلاف نفرت کی آگ میں سلگ رہے تھے پھر ترکی میں خلافت کے سقوط نے اس آگ کو مزید دو آتشہ کردیا۔
اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے تحریک خلافت کا پرجوش اور شاندار آغاز کیا گاندھی جی کو اس تحریک کا سربراہ بنایا یہ شاید بڑی عجیب سی بات لگے کہ مسلمانوں کے جذباتی مرکز خلافت کے ادارے کی بحالی کے لیے جس خلافت تحریک کا آغاز ہوا اس کا سربراہ ایک ہندو کو بنایا گیا۔ چونکہ برصغیر میں برطانیہ سے آزادی کی جو تحریک چل رہی تھی وہ ہندو و مسلمان دونوں مل کر چلا رہے تھے اس لیے مسلمانوں نے یہ سوچا کے اس تحریک میں جو برطانوی سامراج کے خلاف تھی ہندوئوں کو بھی شامل کرلیا جائے دوسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ اس تحریک خلافت کو مذہبی انتہا پسندی کے خانے میں نہ ڈال دیا جائے اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ برطانوی سامراج نے یہ سراسر آمرانہ اور غیر جمہوری قدم اٹھایا ہے اور مسلمانوں کے جذبات کو کچلا گیا ہے اس لیے تمام مذاہب کے لوگ برطانیہ کے اس ظالمانہ اقدام کو ناپسند کرتے ہیں۔ پھر گاندھی جی نے بھی یہ منصب اسی لیے قبول کرلیا کہ اس تحریک خلافت کے ذریعے پہلے سے چلنے والی تحریک آزادی ہند کو مزید تقویت حاصل ہو جائے۔
ترکی کے مسلمان برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو اسی لیے بڑے دل و جان سے چاہتے ہیں کہ ترکی کے بعد پوری دنیا میں برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت کے احیاء کے لیے ایک منظم تحریک چلائی تھی۔
پھر یہ تحریک بھی۔۔ جو اس شان سے اٹھی تھی کہ مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی جو عظیم لیڈر تھے ان کی والدہ بی اماں کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا جو انہوں نے اپنے بیٹوں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ’’بیٹا جان خلافت پہ دینا‘‘ پھر تحریک خلافت بھی ناکام ہو گئی، برصغیر کے مسلمان 1857کی جنگ آزادی اور تحریک خلافت دونوں کی ناکامی سے شدید مایوسی کا شکار ہو گئے گو کہ تحریک آزادی کی جنگ میں جو جانی نقصان ہوا اس کے مقابلے تحریک خلافت میں کم نقصان ہوا۔ دوسری طرف انگریز سرکار بھی یہ طے کرچکی تھی کہ اب ہندوستان اور پاکستان کو آزادی دینا ہی پڑے گی۔ رات کی سیاہی جب گہری ہوتی چلی جاتی ہے تو طلوع سحر قریب آتی جاتی ہے یہی ہوا کہ مسلم لیگ نے جب تحریک پاکستان کا آغاز کیا تو غم و غصے کے جذبات سے لبریز لوگ دل و جان سے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں متحد ہو گئے اور بالآخر پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئے اس لیے ہم سمجھتے ہیں برصغیر میں چلنے والی تحریک خلافت بھی تشکیل پاکستان کا ایک اہم سبب ہے۔