دوقومی نظریہ اور قیام پاکستان

775

سرسید احمد خان کی نگاہوں نے 1867ء ہی میں دوقومی نظریہ کی اہمیت کا اندازہ کرلیا تھا جب سر برآردہ ہندوئوں نے اردو زبان و فارسی خط کے خلاف مہم شروع کی اور اس کے خاتمے کے ساتھ دیوناگری خط کا مطالبہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا جب کہ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ اب ہندو مسلمان کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملا کر سب کے لیے کوشش کرنا محال ہے۔ یہی تاریخی ریمارکس انہوں نے مسٹر شیکسپیئر جو کہ بنارس کے کمشنر تھے ان سے کہتے ہوئے پیش گوئی کی کہ ’’اب مجھ کو یقین ہوگیا ہے کہ دونوں قومیں کسی کام میں دل سے شریک نہیں ہوں گی۔ ابھی تو بہت کم ہے آگے اس سے زیادہ مخالفت اور عناد ان لوگوں کے سبب جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں بڑھتا نظر آتا ہے جو زندہ رہے گا وہ دیکھے گا‘‘۔ تحریک پاکستان کے وجود سے پہلے ایسی ہی قومی شخصیتوں نے اندازہ کرلیا تھا کہ دوقومی نظریہ ایک حقیقت ہے۔ اسی جانب 1937ء کے الیکشن میں جب کانگریس نے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرلی تو مسلم لیگ اور کانگریس معاہدہ کے تحت کولیشن وارت بنانے کا وقت آیا تھا تو کانگریس اپنے وعدے سے مکر گئی (یہ اس کی پرانی تاریخ ہے جس طرح آج تک کشمیر میں رائے شماری سے مکر کر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے) اور کامیابی کے تکبر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ توڑ کر کانگریس میں شامل ہوجائو‘‘۔ کانگریس کے قائدین خود جواہر لعل نہرو کے رویے میں اس تبدیلی کو تعصب کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ چناں چہ کانگریس میں اس متعصبانہ رجحان کا انداز کرتے ہوئے علامہ اقبال نے قائداعظم کو اپنے ایک اہم خط کے ذریعے اس خطرناک رجحان سے آگاہ کرتے ہوئے 20 مارچ 1937ء میں آل انڈیا نیشنل کونشن میں متعصبانہ ذہنیت کے جواب دینے اور مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی مقام سے آگاہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور مقابلے میں آل انڈیا مسلم کنونشن کے انعقاد کا مشورہ دیا خود قائداعظم بھی کانگریس کی سیاست میں واضح تبدیلی محسوس کررہے تھے اور وہ کانگریس کے اس تضاد و متعصبانہ رویے پر حیران تھے اور ان کا کانگریس سے اعتماد اٹھتا جارہا تھا۔
1937ء کے یہ واقعات ہندو ذہنیت و سیاست کو واضح کرتے ہیں جو کہ پاکستان کے قیام کی بنیادی وجوہات بنیں اور دو قومی نظریہ ایک حقیقت و مضبوط موقف اختیار کرنے اور فیصلہ کن آزادی کی تحریک کی کامیابی کی ضمانت بنا۔ قائداعظم نے اس ہندو ذہنیت کا کامیابی سے سیاسی جدوجہد کے ذریعے پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا۔ یوں سرسید کی پیش گوئی اور علامہ اقبال کا خواب سچی حقیقت کا روپ دھار کر پاکستان کی شکل میں موجود ہے۔ آج اس کی ڈائمنڈ جوبلی منائی گئی ہے لیکن کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ ہم نے دو قومی نظریہ کے بجائے چار اور پانچ قومی نظریہ اور صوبائیت و لسانیت کے زہر سے آزادی کی اس عظیم نعمت کو آلودہ کردیا ہے اور دو قومی نظریہ کو مضبوط بنانے کے بجائے اس کے دو ٹکڑے کر دیے۔ نظریہ و اصول کے بجائے تعصب لسانیت و علاقائی فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دیا، وڈیرہ شاہی، جاگیرداری، سرمایہ داری و سرداری نظام کے ذریعے دوبارہ غلامی کے رجحان کو فروغ دیا، اسلام جو دو قومی نظریہ و پاکستان کے وجود کا اہم جذبہ محرک تھا اُسے نظر انداز کردیا۔ قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کا چرچا کیا جاتا ہے اور لبرل و سیکولر حضرات اس تقریر سے سیکولرازم برآمد کرتے ہیں جب کہ وہ دیگر تقاریر کو نظر انداز کرتے ہیں۔ خصوصاً انہوں نے امریکا کو پیغام دیتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ اسلامی جمہوری آئین بنائیں گے اور جو اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ دار آئین ہوگا، جبکہ 11 اگست کی تقریر بھی اسلامی رواداری، وسعت و آزادی اقلیت کی نقیب تھی اور اسلام کی روشن خیالی و امن و سلامتی اور شہریوں و اقلیتوں کے حقوق کی آزادی کی آئینہ دار تھی، اس تقریر کو چونکہ عالمی سطح پر بطور پالیسی بنانا تھا لہٰذا اس میں اسلام نے جو حقوق اقلیتوں کو دیے ہیں اُس کا خاص طور پر ذکر و اہمیت واضح کی گئی ہے لیکن اگر موازنہ کیا جائے تو ہم نے نہ ہی 11 اگست اور نہ ہی دیگر تقاریر پر عمل کیا، وطن عزیزکو مفاد پرستانہ سیاست کی بھینٹ چڑھا کر اس کی منزل و مقاصد سے مزید دور کردیا ہے۔
قائداعظم کا پاکستان آج اپنی اصل شناخت سے محروم ہے۔ دہشت گردی، فرقہ واریت، صوبیت، لسانیت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، انصاف و عدل طاقتوروں کو حاصل ہے، ظلم تشدد و لاقانونیت کا راج ہے، بے تحاشا مہنگائی، بیروزگاری نے غریب عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط اپنے تعیش و آسائش کے لیے مزید قرضوں کے حصول کے لیے یہ شرائط قبول کی جارہی ہیں اور الزام ہر جانے والی حکومت پر لگایا جاتا ہے۔ یہ قرضے غریب عوام کی غربت میں مزید اضافہ کا سبب بنتے ہیں، حکمراں طبقہ احتساب سے آزاد ہے ان کی دولت کے چرچے ہیں، نیب قوانین کو اپنے مفاد کے مطابق بنایا جارہا ہے جبکہ عوام کے لیے سخت ترین احتسابی قوانین ہیں، کرپشن کو قانون سے مُبرا قرار دیا گیا ہے، یہ سلسلہ مزید جاری رہا تو ملکی سلامتی کے لیے سخت خطرے کا باعث ہوگا۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ حکومت و سیاست کو کرپشن و تعصب سے پاک کیا جائے، اداروں کو سیاست سے پاک کرکے مضبوط بنایا جائے اور قوانین و آئین کا پابند بنایا جائے، ان سب کا مکمل اسلامی نظام کا نفاذ ہے، ہم نے بدقسمتی سے ملک کو اسلامی قوانین سے محروم کر رکھا ہے اور محض اسلام کے نام پر نعرے بازی اختیار کر رکھی ہے جس کا نتیجہ ہم سابقہ مشرقی پاکستان کی علاحدگی کی صورت میں بھگت چکے ہیں، اب ہمیں جاگ جانا چاہیے اور نعمت خداوندی اس پاکستان میں مزید تاخیر کے اسلامی قوانین، عدل و انصاف کو عملی طور پر نافذ کرنا چاہیے تا کہ ہم مزید کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہوں۔