اب اور کتنے مشکل فیصلے کرنے ہوں گے

1111

پاکستانی حکومت کے اتحاد میں اختلافات کی خبریں اچانک سامنے آنے لگیں اچانک نواز شریف حکومت کے فیصلوں پر ناراض ہونے لگے۔ اٹھ کر اجلاس سے چلے گئے۔ مریم نواز نے ٹویٹ کردیا کہ میں بھی میاں صاحب کے ساتھ عوام کے ساتھ کھڑی ہوں۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ میں عوام پر مزید بوجھ برداشت نہیں کروں گا۔ مریم نواز کہتی ہیں کہ میں حکومتی فیصلوں کی مزید تائید نہیں کرسکتی۔ میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کے مخالف تھے اور ویڈیو لنک پر اسلام آباد سے مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی کی رائے تھی کہ معاشی صورتحال نازک ہے اخبار نے اسے (ن) لیگ لندن اور (ن) لیگ اسلام آباد کے مابین اجلاس قرار دیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ (ن) لیگ اسلام آباد آئی ایم ایف سے معاہدہ خراب نہیں کرنا چاہتی اس لیے (ن) لیگ لندن کا حکومت پر دبائو نہیں ہونا چاہیے۔ خبر کے مطابق میاں نواز شریف یہ کہہ کر اجلاس سے اٹھ گئے کہ میں حکومت کے ایسے فیصلے کی حمایت نہیں کروں گا۔ حکومت کی مجبوری ہے تو میں اس فیصلے کا حصہ نہیں بنوں گا۔ اخبار کی خبر سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ مسلم لیگ کے لندن کے پرسکون ماحول میں بیٹھے لوگوں کو پاکستانی عوام کی تکالیف کا بہت درد ہے اور جو لوگ اسلام آباد میں بیٹھے ہیں انہیں آئی ایم ایف کی چاکری کرنی پڑ رہی ہے اس لیے وہ ایسے فیصلے کررہے ہیں۔ یہ بات میاں نواز شریف اور مریم نواز تک محدود رہتی تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ پارٹی میں اختلاف رائے ہے لیکن اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری نے بھی کہا ہے کہ فیصلوں پر مشاورت ہونی چاہیے۔ وزیراعظم سے اس معاملے پر بات کروں گا۔ سابق صدر نے عوام کی ہمدردی سے بھرپور بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کو ریلیف دینا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ پیٹرولیم قیمتوں میں اضافے پر تشویش ہے مزید یہ کہ حکومت کی ایک اور اتحادی ایم کیو ایم نے بھی اظہار تشویش کردیا ہے۔ اس کی رابطہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی مزید بڑھے گی۔ ان ساری باتوں سے محسوس ہورہا ہے کہ حکومتی اتحاد میں عوام کو ریلیف دینے کے معاملے پر سوچ بچار ہورہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام اس سے بے خبر ہیں کہ ’’تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں‘‘ یعنی وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ حکومت مزید مشکل فیصلے کرے گی۔ انہوں نے کہا ہے کہ پیٹرول قیمتوں میں اضافے پر زرداری سمیت سب کو اعتماد میں لوں گا تاہم انہوں نے ایک اچھی بات کہی ہے کہ اگلا ہدف مہنگائی کم کرنا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود نتیجہ صرف یہ آیا ہے کہ عوام پر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے، بجلی کے نرخوں میں اضافہ، نت نئے ٹیکس وغیرہ مسلط ہورہے ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے پیٹرولیم قیمتوں میں اضافے کے بارے میں عجیب دلیل دی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے تو ٹیکس نہ لگانے کا کہا تھا قیمتیں کم کرنے کا نہیں یعنی ان کے خیال میں ٹیکس نہ لگانے سے قیمتیں کم نہیں ہوتیں۔ انہوں نے ایک اور تنازعہ بھی کھڑا کردیا کہ اوگرا آٹو پر ہے یعنی اس کا خود کار نظام ہے۔ تمام سفارشیں اوگرا سے آتی ہیں تو پھر 15 روپے فی لیٹر کم کرنے کی تجویز کیا کسی ایک اخبار کی اختراع تھی۔ وزیر خزانہ نے اوگرا پر براہ براست الزام لگایا ہے اور اپنے بیان اور دعوے کی حمایت میں کوئی دلیل بھی نہیں دے سکے اگر اوگرا کا نظام خود کار ہے تو اس نے اس خود کار نظام کے تحت 15 روپے فی لیٹر کم کرنے کی سفارش کی تھی پھر اسے تسلیم کرنے سے انکار کیوں کیا گیا۔ دراصل یہ حکومتی ٹولہ اور اپوزیشن والے سب ملے ہوئے ہیں اب ان کی باری ہے یہ طے ہونا باقی ہے کہ اگلی باری کس کی ہوگی کون اچھا خادم ثابت ہوگا۔ جو اپنی خدمات کا صاحب لوگوں کو یقین دلادے گا اس کے سر پر 2023 میں سہرا سجادیا جائے گا۔ یہ سب کہانیاں بھی بے کار ہیں کہ عمران خان کی سیاست ختم ہوگئی۔ فوج ناراض ہوگئی اور اب ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں جب معاملہ طے ہوجاتا ہے تو الطاف حسین بھی اچھے بچے ہوجاتے ہیں اور جام صادق بھی اور مینگل بھی۔ اور آج کل مسلم لیگ اور اس سے قبل زرداری بھی۔ لیکن اگر معاملات طے نہ پائیں تو غدار ۔۔۔ لہٰذا کسی قسم کے دھوکے میں آنے کی ضرورت نہیں قوم کو یہ سب مل کر بے وقوف بنارہے ہیں۔ ہر قدم عوام پر ظلم میں اضافے کا اٹھایا جارہا ہے یہ جو اختلاف رائے ظاہر کیا گیا ہے یہ آنے والے دنوں میں پی ڈی ایم کے چہرے کو صاف کرنے کے لیے کام کرے گا اس وقت عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمتیں ہورہی ہیں پاکستانی روپیہ بہتری کی طرف جارہا ہے غالباً اس سارے ڈرامے سے حکومتی اتحاد کا مقصد تھوڑا سا وقت لینا ہے کہ جوں ہی سعودی عرب امارات اور کسی اور ملک سے رقم کا انتظام ہوجائے اور آئی ایم ایف سے قرض جاری ہوجائے یہ پیٹرول کی قیمتوں میں بڑی کمی کرکے یہ ظاہر کریں کہ حکومتی اتحاد عوامی فلاح کے منصوبے رکھتا ہے اور سب عوام کی فکر میں گھلے جارہے ہیں حالانکہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ یہ سب کے سب حکومتوں ہی میں رہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کا تو مطلب یہی ہے کہ جس کی حکومت ہے اس کے ساتھ ہوں گے۔ ان سب کا ماضی کون سا اچھا ہے جو چند باتوں کی وجہ سے انہیں اچھا سمجھا جائے کہ ان سے امیدیں باندھی جائیں ان پر جس نے بھروسہ کیا اسے مایوسی ہی ہوگی۔