مزدوروں کا ڈھول سپاہی رخصت ہوگیا

606

اشتیاق آسی بھی رخصت ہوگئے، اب ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، جو نہایت مہربان اور رحمن اور رحیم ہے، بندے چاہے بھول جائیں مگر وہ مالک کائنات اپنے بندوں کو نہیں بھولتا، اشتیاق آسی نے بھی زندگی میں بہت نشیب فراز دیکھے، بہت ان تھک انسان تھے اچھی بھلی صحت تھی، تاہم اپنی اہلیہ کے بعد صاحب زادی اور اپنے بھائی کے انتقال کے بعد وہ اندر سے ٹوٹ سے گئے تھے، مگر چہرے سے عیاں نہیں ہونے دیتے کہ انہیں کوئی پریشانی ہے، جو انہیں اندر سے کھائے جارہی تھی، غم دیمک کی مانند ہوتا ہے، کسی کو لگ جائے تو بس جان لے کر ہی رہتا ہے، وہ ساری عمر مزدور رہے، مزدور کے لیے لڑتے رہے، مگر ان کی زندگی میں ایک بات نمایاں رہی کہ حالات جیسے بھی ہوں وہ مطمئن رہتے تھے، آج کل کے بڑے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ انہیں ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا وہ جانتے تھے کہ یہ چار دن کی زندگی ہے اور اصل بات یہ ہے کہ ہم جب دنیا سے رخصت ہوں گے تو اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے، ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ بات مجھے بھی سوچنی ہے اور دیگر کو بھی، جن کا نام کلمہ گو انسانوں کی فہرست میں شامل ہے، ہمارے ایک مہربان دوست اشتیاق آسی کو اللہ ایسے ہی لوگوں میں شمار کرے جن پر اس کی رحمت ہوتی ہے، آمین، سچ یہی ہے کہ ان سے پہلے بہت سے چلے گئے، اور مزید چلے جائیں گے یہ دنیا فانی ہے، بس چند دنوں کی مہلت عمل ہے، بالکل ایسے جیسے کوئی شخص کمرہ امتحان میں بیٹھا ہو، اور ممتحن کہہ دے کہ بس وقت پورا ہوگیا ہے، لہٰذا اس وقت جیسا بھی پرچہ حل کیا ہو ، اس کے حوالے کرنا ہی پڑتا ہے، مرحوم مزدور یونین کے حوالے سے ایک بہت بڑا کردار اور مزدور کے لیے ایک مخلص نام تھے، وہ مزدوروں کے جرنیل بھی تھے، کرنیل اور ڈھول سپاہی بھی تھے، انہوں نے سب کچھ مزدوروں کے لیے مانگا، اپنے لیے کچھ نہیں مانگا، ان کے حق میں یہ گواہی دینی چاہیے کہ انہوں نے لیڈری بیچی نہیں، اب وہ اللہ کے حضور پیش ہوگئے ہیں انہوں سے صدق دل سے مزدوروں کی خدمت کی اور ان کی گردن پر کوئی بار نہیں ہے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے حق میں کی جانے والی مغفرت کی دعائوں کو قبول فرمائے،آمین
ان میں دوسروں کے لیے ہمدردی اور محبت بھی تھی اور انسانی جذبات کا تلاطم بھی یہ زندگی کا وہ حسین اظہار ہے جو بنی نوع انسان کے مختلف النوع طبیعت پر مختلف اثرات پیدا کرتا ہے ان کی خوشی اسی میں تھی کہ مزدور خوش حال ہوجائے، میری مرحوم سے بہت اچھی یاد اللہ تھی، وہ بہت ہی دبنگ مزدور راہ نما تھے، اور خوف خدا رکھنے والے بہترین انسان بھی، ذاتی زندگی میں بھی انہیں بہت قریب سے دیکھنے اور ملنے کا اتفاق ہوا ہے، رمضان المبارک میں وہ اپنی ہر مصروفیت چھوڑ دیتے تھے اور سارا دن قرآن مجید کی تلاوت ان کا معمول تھا، یہ عام دنوں کا بھی معمول تھا۔
زندگی کے بہت سے نشیب و فرزا سے گزرے، ان کے دل میں عالم اسلام کے ممتاز اسکالر، عالم دین، مصلح اور تفہیم القرآن کا مقدمہ لکھنے والی روحانی علمی شخصیت سید مودودی کے لیے بہت قدر تھی، میں بھی انہیں تقریباً ہر ملاقات میں چاہے ٹیلی فون پر ہو یا بالمشافہ، انہیں جماعت اسلامی میں واپسی کے لیے رجوع کرنے کی درخواست کرتا رہتا تھا، میری بات سن کر کبھی خاموش رہتے، کبھی کہتے اچھا دیکھتے ہیں، بہر حال بات دھیرے دھیرے آگے بڑھتی رہی، ایک دن ایسا ہوا کہ مجھے طلب کیا، اور طویل گفتگو کی فیصلہ یہی ہوا کہ وہ ملک کے مزدوروں کی ویلفیئر کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑا کریں گے، انہی رابطوں کے نتیجے میں محترم شمس الرحمن سواتی سے بھی رابطہ ہوا، دو بار ملاقات بھی ہوئی، کچھ تفصیلات ایسی ہیں کہ شمس الرحمن سواتی ہی بتاسکیں گے، تاہم اتنا ضرور علم ہے کہ جماعت اسلامی انہیں اپنے سینے سے لگانے پر تیار تھی، مرحوم بھی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے پر پوری طرح آمادہ تھے، اس کے باوجود یہ سب کچھ کیوں آگے نہیں بڑھ سکا؟ شمس الرحمن سواتی اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ کوئی بات کریں تو کریں، وہ آگے بڑھیں اور ملک کے مزدوروں کو بتائیں کہ اتحاد کی جس خواہش کا اظہار اشتیاق آسی نے کیا تھا، اب اس عمل کو کیسے آگے بڑھایا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ ان باتوں کے امین ہیں، جو مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے اشتیاق آسی نے ان کے ساتھ کی تھیں، دیکھیں اگر کوئی اس میں مین میکھ نکالنے کی کوشش کرے تو اس کی مرضی، بہر حال سفر جب بھی شروع کیا جاتا ہے اس کے لیے پہلا قدم تو اٹھانا ہی پڑتا ہے، اشتیاق آسی یہ قدم اٹھا چکے تھے، زندگی نے یا حالات نے انہیں مہلت نہ دی، کچھ تو ہے، اس کے باوجود بھی ابھی کچھ نہیں بگڑا، اگر کوئی بکھرے ہوئے نگینے سمیٹنا چاہے تو ملک کے مزدوروں کی زندگیوں میں تبدیلی آسکتی ہے، اب چونکہ وہ دنیا میں نہیں رہے، اور نہ وہ جواب دینے کی سکت رکھتے ہیں، لہٰذا ان تمام لوگوں کا، جو بھی ملک کے مزدوروں کی فلاح چاہتے ہیں، ان سب کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں، اپنی اپنی انا چھوڑیں اور ایک ہوں اور پھر مزدور کی طاقت بنیں، اشیاق آسی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے، مزدور متحد ہوگا، خوش حال ہوگا اور اس کی زندگی میں بہتری آئے گی تو مرحوم اشتیاق آسی کی روح بھی خوش ہوگی، ورنہ سب مزدور تنظیمیں، تنہا سفر جاری رکھ کر اب تک کیا کما سکی ہیں؟ سوائے خود کو ہلکان کرنے کے، تنہا سفر کا نتیجہ صفر ہی رہے گا، لہٰذا سب ہم خیال تنظیموں اور ان تنظیموں کے افراد کو چاہیے کہ مزدوروں کی خاطر، متحد ہوجانے کی کوئی سبیل پیدا کریں۔