خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی

615

پرانی بات ہے اپنے ہی وطن میں ہجرت کا عذاب سہنے والے پریشان حال لوگوں کے درمیان وہ سفید ڈاڑھی والے بزرگ جن کا جھریوں بھرا چہرہ اس حال میں بھی ایک سکون کی کیفیت کا آئینہ دار تھا، معذور بھی تھے، لیکن پھر بھی دربدری کے اس عذاب میں ایک طمانیت کے عالم میں خیمے کے باہر بیٹھے تھے، بات ہوئی تو انہوں نے ایک گہرا سانس لیا اور ٹھیرے ٹھیرے لہجے میں بولے کہ ’’اس ساری مصیبت کی وجہ ہمارے گناہ ہیں۔ اللہ ہم سے ناراض ہے، اس مشکل سے صرف اسی صورت میں نکلا جاسکتا ہے کہ ہم اللہ کی طرف پلٹیں۔ اس سے رجوع کریں۔ اپنے گناہوں پر صدقِ دل کے ساتھ معافی مانگیں۔ اپنے عمل درست کریں‘‘۔
یقینا بزرگ غلط نہیں کہہ رہے۔ آج ملک میں باطل اپنے پورے کروفر کے ساتھ کار فرما نظر آتا ہے۔ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے حق پر ڈاکے ڈالے، اس کا بھائی اُس کے شر سے پناہ مانگے، امانت میں خیانت اور عہد کو توڑنا اُس کے لیے معمولی بات ہو، حرام اور حلال کی تمیز کے بغیر اپنی خواہشات کو پورا کرنا کوئی غلط بات نہ سمجھی جائے۔ بھلا ایسی صورت میں کسی معاشرے کو اسلامی معاشرہ کہا جاسکتا ہے؟۔ جب کہ یہ سرزمین بے پناہ قربانیوں کے بعد اسلام کے نفاذ کے لیے حاصل کی گئی ہو!!! کسی نام کے بھی اسلامی معاشرے کے لیے اس سے بڑی تکلیف و بدنامی کی بات کیا ہوگی کہ وہ انصاف سے خالی اور ظلم سے لبریز ہوتا چلا جائے۔
دیانت و امانت، عدل و انصاف، فرض شناسی اور راست بازی کے بغیر معاشرت، سیاست، معیشت، تجارت یا تعلیم، کسی بھی شعبہ میں بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اگر ان شعبوں میں ایسے افراد قابض ہیں جن کی نظر اپنی ذات اور مفاد سے اوپر نہیں اُٹھتی تو پھر بہتری کا خواب خواب ہی رہے گا۔
جب اپنی ذات اور اپنا مفاد پہلی ترجیح بن جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پھر مسلمان کی نظر میں خدا کی رضا اور آخرت کی فلاح کے بجائے دنیاوی فلاح سب سے پہلے مطلوب کا درجہ رکھتی ہے۔ آج حالات کچھ ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ سو ہماری مصیبتوں کی وجہ ہمارے اعمال ہیں۔ نجات کی راہ استعفار ہے۔ استعفار کا ایک انداز تو زبانی ورد ہے۔ لیکن جب تک اُس کے ساتھ عملی استعفار شامل نہیں ہوگا۔ معافی کا حصول مشکل ہے۔ سب سے بڑی خیانت و بددیانتی اپنے راہ نمائوں کے انتخاب میں خیانت ہے۔ یہ عمل معاشرے کی ہر برائی کے لیے باطل کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ جانتے بوجھتے ہر طرح کی بے ایمانی، رشوت، ظلم یہاں تک کہ قتل میں ملوث لوگوں کو اپنے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں لایا جائے اور پھر ظلم اور بے انصافی کے خاتمے کی اُمید رکھی جائے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟
حالات کو درست کرنا ہے تو زبانی استعفار کے ساتھ عملی استعفار کو بھی اپنایا جائے۔ عہد کیا جائے کہ ہم اپنے ملک کو۔ اپنے معاشرے کو، اپنی آنے والی نسلوں کو بے ایمان ظالم اور اللہ کے نافرمانوں کے حوالے نہیں کریں گے، استعفار کی اجتماعی محفلیں منعقد کی جائیں لیکن استعفار کے ورد اور تسبیح کے ساتھ ساتھ عملی استعفار کا بھی عہد کریں کہ
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود آپ اپنی حالت بدلنے کا
پاکستان کے قیام کا مقصد انگریزوں سے آزادی ہی نہیں اپنے مذہبی اور تہذیبی تصورات کے مطابق معاشرے کی تعمیر بھی تھی۔ آزادی کے حصول کی راہ میں دس لاکھ مسلمانوں کا خون بہا، ایک کروڑ سے زائد مسلمان ہجرت پر مجبور ہوئے اور ہزاروں عصمت مآب مسلمان خواتین نے نہایت مظلومانہ انداز میں عصمتوں کی قربانی دی۔
یقینا یہ قربانی موجودہ کرپشن کی دیمک زدہ کٹے پھٹے اور دولخت پاکستان کے لیے نہیں تھی، برصغیر کے مسلمانوں نے جس پاکستان کا مطالبہ کیا تھا انہیں 1947ء میں اس سے بہت کم پر راضی ہونا پڑا۔ لیکن پھر بھی کاٹ پیٹ کر دیا گیا۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں اور اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک بن کر نمودار ہوا تھا لیکن افسوس حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی اور عوام کی ناسمجھی کے باعث یہ دونوں حیثیتیں برقرار نہ رہ سکیں۔
پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ اوّل دن سے فراز کے بجائے نشیب کی تاریخ نظر آئی ہے۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی یہ سوچ لیا گیا کہ اب کام مکمل ہوگیا۔ جنگ جیت لینے کے احساس کے ساتھ ہتھیار کھول کر رکھ دیے گئے اور مال غنیمت کے لیے بڑھ چڑھ کر ہاتھ مارے جانے لگے۔ اقتدار پر اوّل دن سے افسر شاہی کا تسلط رہا۔ عوام ذہنی پسماندگی کے ساتھ جہالت کا شکار تھے۔ لہٰذا اپنے حق کے لیے نہ متحد ہوسکے اور نہ ہی دیانت دار اور پُرخلوص قیادت کا انتخاب کرسکے۔ علاقائی اور مذہبی عصبیت نے بھی خوب پَر پھیلائے۔
اگرچہ قیام پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی نے مارچ 1949ء میں قرار دادِ مقاصد منظور کرلی لیکن عملی طور پر اس کا نفاذ نہ ہوسکا۔ آج انقلاب کی بات کی جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن یہ انقلاب نہ انقلاب روس ہے اور نہ انقلاب فرانس پاکستان کا انقلاب دراصل اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے ہوگا جو اوّل روز سے قیام پاکستان کا مقصد تھا، ہے اور رہے گا۔ جہاں قانون اور انصاف کی بالادستی ہوگی غربت بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے پرخلوص اور موثر کوششیں کی جائیں گی۔ جہاں غربت کے باعث کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے گا، جہاں کوئی شہری نہ بھوکا رہے گا اور نہ علاج سے محروم۔ یہ کام سچے اور دیانت دار لوگ ہی کرسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر قسم کے معدنی وسائل دیے ہیں۔ سونا، چاندی، تانبہ، تیل، نمک، کوئلہ، گیس۔ پھر ذہین اور پرخلوص محنتی لوگوں کی بھی کمی نہیں۔ کمی اگر ہے تو اہل دیانت دار اور پرخلوص حکمرانوں کی۔ اصلاح کی خواہش اور پرخلوص جذبے کے ساتھ راستے کو ہموار کرنا ہی اصل کام ہے۔ برائی کا راستہ نیکی اور جھوٹ کا راستہ سچ ہی روک سکتا ہے۔ لہٰذا نیکی اور سچائی کے لیے دیانت دار لوگوں کے ساتھ مل کر برائی اور جھوٹ کا راستہ روکنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔