اتھارٹی اوگرا نہیں مافیا ہے

515

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو نامعلوم کس وجہ سے اتھارٹی کہا جاتا ہے۔ اس کی طرح کی ایک اور اتھارٹی نیپرا ہے۔ اور اس قسم کی ایک اتھارٹی پیمرا بھی ہے۔ آج تک ان اداروں کی جانب سے عوامی مفاد کا کوئی کام سرزد ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ تازہ واردات اوگرا کی ہے۔ اس نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے کمی کی تجویز حکومت کو بھیجی تھی۔ یقینا اگر یہ کوئی سنجیدہ ادارہ ہے تو اس کے ذمے داران نے کسی دلیل کی بنیاد پر یہ تجویز وفاقی حکومت کو دی ہو گی۔ اور ہوا بھی یہی تھا۔ اوگرا نے عالمی منڈی کی قیمتوں، ڈالر کی گرتی ہوئی قیمتوں اور پاکستانی روپیہ اوپر جانے کے علاوہ دیگر عوامل کی بنیاد پر یہ تجویز دی تھی کہ قیمتیں کم کر دی جائیں۔ لیکن جواب میں جو دلیل دی گئی وہ دلیل ہی نہیں تھی بلکہ وفاقی وزیرخزانہ کا جواب تھا کہ ہم نقصان برداشت نہیں کر سکتے۔ اصولاً سمری پر دستخط اور حتمی فیصلہ وزیراعظم کو کرنا تھا لیکن چونکہ وزیرخزانہ مفتاح اسمٰعیل کہہ چکے تھے کہ حکومت نقصان برداشت نہیں کر سکتی چنانچہ فیصلہ وہی ہوا جو وزیرخزانہ نے کہا تھا۔ اوگرا اور وزیراعظم ثانوی حیثیت اختیار کر گئے۔ وزیرخزانہ کی یہ دلیل بھی بڑی بودی ہے کہ حکومت نقصان برداشت نہیں کر سکتی تو کیا عوام نقصان برداشت کر سکتے ہیں انہیں تو قرض بھی آسانی سے نہیں ملتا اور وہ کسی پر ٹیکس بھی نہیں لگا سکتے۔ ان کی آمدنی کے ذرائع بھی محدود ہوتے ہیں۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پیٹرول پونے 7 روپے مہنگا کر دیا گیا اور ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں برائے نام کمی کر دی گئی۔ جب کہ عملاً صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ مہینے کے دوران عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم قیمتیں 25 ڈالر فی بیرل سے بھی زیادہ کم ہو چکی ہیں۔ عوام کو اس فیصلے سے براہ راست 22 روپے کا دھچکا لگا۔ کیونکہ وہ 15 روپے کمی کے منتظر تھے اور توقع کر رہے تھے کہ اگر 15 روپے نہیں تو 10 روپے ضرور کمی ہوگی۔ لیکن قوم کو جو خبر ملی وہ یہ تھی کہ 15 روپے کمی کے بجائے 7 روپے اضافہ ہو گیا۔ اس فیصلے سے ظاہر ہوا کہ اوگرا نام کی کسی اتھارٹی کا وجود نہیں وہ کوئی بھی سمری بھیج دے اسے مسترد کر کے ان لوگوں کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے جن کے مفاد کا وزیرخزانہ بھی خیال رکھتے ہیں۔ اگر پیٹرولیم نرخوں میں عالمی منڈی میں تیزی سے کمی نہ ہو رہی ہوتی اور ڈالر تیزی سے نہ گر رہا ہوتا تو شاید عوام بھی اسے عالمی وبا سمجھ کر قبول کر رہے ہوتے لیکن یہاں تو عوام کے ساتھ صریح دھوکا کیا گیا ہے۔ یہ دوسرا موقع ہے جب عوام کو اس طرح دھچکا پہنچایا گیا ہے۔ اس سے قبل عمران خان کے دور میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گرنے کے بعد پیٹرولیم مافیا کے دباؤ میں آکر خان صاحب نے ایک رات میں 25 روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا تھا اوگرا نامی ادارہ اس وقت بھی موجود تھا۔ گویا ایسے کسی ادارے کو اتھارٹی کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جیت مافیا ہی کی ہو گی۔ اگر نیپرا کو دیکھا جائے تو یہ اتھارٹی بھی برائے نام اتھارٹی ہے۔ بجلی کے نرخ بڑھانے ہوں تو بڑے طمطراق سے اس کا حکم جاری ہوتا ہے لیکن بجلی فراہم کرنے والے پرائیویٹ اداروں کی چوریوں کی مصدقہ رپورٹوں پر تو یہ ادارہ حیرت کا اظہار کر کے سماعت کے دوران چبھتے ہوئے ریمارکس سے خبر بنوا لیتا ہے اور فیصلہ مافیا ہی کا چلتا ہے۔ کے الیکٹرک کی جعلسازیوں، زیادہ بلنگ، تیز میٹر، مسلسل پچھلے مہینوں کے واجبات اور غنڈہ گردی کا اسٹائل نتیجہ وہی اسی کے فیصلے چلتے ہیں کراچی کے لوگ چیختے رہ گئے نیپرا نے انہیں حق نہیں دلوایا۔ اسی طرح پیمرا ہے۔ یہ ادارہ تو پیسوں سے زیادہ بڑا نقصان پہنچا رہا ہے۔ ملک کی نظریاتی بنیادوں کو کھود کر رکھ دیا گیا اور اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ ٹی وی چینلز کے ڈرامے، بے ہودہ اشتہارات، قابل اعتراض سین اور ڈائیلاگ قومی نظریے کے خلاف ڈرامے سب چلتے ہیں دین بیزاری سے بھرپور پروگرام ہوتے ہیں لیکن یہ اتھارٹی جاگتی اس وقت ہے جب حکومت کی دم پر پائوں دکھ دیا جائے۔ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے یا فوج پر تنقید کی جائے۔ ان میں سے تینوں ہی صورتوں میں ملک کو اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلاکرنے سے ہوتا ہے۔ یہ اتھارٹی بھی اسی طرح کی اتھارٹی ہے جیسی اوگرا ہے۔ اوگرا کے جن افسران نے تجویز بھیجی تھی وہ اپنی تجویز کا دفاع کیوں نہ کر سکے۔ حکومت اس بات کی تحقیق کرے کہ اوگرا کی سفارش میڈیا کی زینت کیوں بنی آخر اس میں کوئی حکمت تو ہو گی۔ دراصل اس میں حکمت نہیں تھی دھوکا تھا۔ اگر یہ خبر آتی کہ کل پیٹرول مہنگا ہو رہا ہے تو لوگ عادتاً پیٹرول پمپس پر رش لگا دیتے اور پیٹرول پمپس والوں کے پاس سستے پیٹرول کا سارا ذخیرہ ختم ہو جاتا۔ چنانچہ پیٹرولیم کمپنیوں اور ڈیلروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے خبر چلوائی گئی کہ 15 روپے فی لیٹر کمی ہو رہی ہے اس طرح لوگ پیٹرول پمپس پر نہیں ٹوٹے اور کمپنیوں اور ڈیلرز کا 227 روپے لیٹر والا ذخیرہ محفوظ رہا جو ٹھیک 12 بجے کے بعد 7 روپے لیٹر مہنگا بیچا گیا۔ یہ کام صرف موجودہ حکومت ہی نہیں کر رہی بلکہ سابق اور اس سے بھی سابق سارے حکمران ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔ لوگوں کو یقین دلایا جارہا ہے کہ ملک پر اصل راج مافیاز کا ہے اداروں کا نہیں۔