اگست، محرم اور جماعت اسلامی

400

اگست ہمارے لیے ہر سال نہایت اہم مہینہ شمار ہوتا ہے، اسی ماہ پاکستان آزاد ہوا، اگست کے مہینے میں ہی ہندوستان چھوڑ دو تحریک شروع ہوئی تھی، یہی مہینہ اپنے اعضا عطیہ کرنے کا بھی مہینہ ہے، اتفاق سے یہ مہینہ اس سال ایک ایسی ترتیب سے آیا کہ محرم کا مہینہ بھی اگست میں آیا ہے، محرم کا مہینہ بھی ہمیں موروثیت اور ملوکیت سے آزادی دلاتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ محرم میں جس طرح سیدنا حسینؓ نے اپنا سر اسلام کے لیے قربان کیا، رہتی دنیا تک اس کی مثال نہیں ملے گی، اگست کا مہینہ اس لیے بھی ممتاز ہے کہ جماعت اسلامی کی تشکیل بھی اسی ماہ ہوئی، مولانا سید مودودیؒ نے بھی ایک انکار کیا اور معاشرے کو پیغام دیا کہ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھا جائو، یہ ایک ایسا پیغام ہے جس میں اقرار بھی ہے اور انکار بھی، آزادی بھی ہے غلامی بھی، مگر اس آزادی اور غلامی کے معنی اور اجر ذرا مختلف ہے، یہی انکار اور یہی اقرار دنیا پر حکمرانی کرنے کا ایک بیانیہ ہے۔
اگست کی مناسبت سے پاکستان اور جماعت اسلامی کو ایک دوسرے الگ دیکھنے والوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ پاکستان اس وقت وجود میں جب برصغیر کے مسلمانوں نے ہندو، انگریز اور عالمی سامراج سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے، تمہارے لیے تمہاری راہ اور ہمارے لیے ہماری راہ، تمہاری ہماری خوراک مختلف، رہن سہن اور عبادت مختلف، تمہارے آلو ہمیں نہیں چاہیے، ہاں مسلم لیگ بہت زعم رکھتی ہے کہ وہ پاکستان کی خالق جماعت ہے، تاریخ بھی یہی ہے، مگر مسلم لیگ نے کبھی نہیں کہا تھا کہ تم بھی آلو کھاتے ہو ہم بھی آلو کھاتے ہیں، لہٰذا تم میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے یہ کس کہا تھا؟ کچھ یاد ہے؟ یہ نواز شریف نے کہا تھا، قائد اعظم نے ہندو قیادت سے کہا تھا میں دو قومی نظریہ کو مانتا ہوں، لہٰذا برصغیر تقسیم ہوکر رہے گا، وہ کسی ہندو لیڈر کے فون کا انتظار نہیں کرتے رہے، فون کا انتظار کس کو تھا، مودی کے فون کا انتظار عمران خان کو تھا، پھر بھی ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کے حقیقی لیڈر ہیں، یہ دعویٰ کیوں؟ انکار اور اقرار ہی اصل بیانیہ ہے، پاکستان کا بیانیہ یہ تھا کہ دو قومی نظریہ برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے لیے ایک الگ اسلامی ریاست کے قیام کی راہ دکھاتا ہے جہاں وہ اپنے دین کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں، جماعت اسلامی کا بیانیہ کیا ہے؟ یہی کہ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھاجائو، ایک بیانیہ وطن عزیزکے قیام کی حد تک 14 اگست 1947 کو پورا ہوا، اور دوسرا بیانیہ جماعت اسلامی کا ہے جو رائے عامہ کو منظم کر رہا ہے یہ کسی فرد کا نہیں بلکہ ایک تحریک کا بیانیہ ہے، کسی فرد کی جانب نہیں بلکہ جماعت کی طرف بلاتا ہے، جماعت اسلامی کے بیانیہ اقتدار لینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اصلاہ معاشرہ کے لیے ہے، نیک اور صالح افراد کی ٹیم تشکیل دینے کے لیے ہے پھر ان کے ذریعے انقلاب اور تبدیلی لانے کا بیانیہ ہے، مولانا مودودی ہوں یا میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد ہوں یا منور حسن، سب اپنے اپنے دور میں جماعت اسلامی کے بیانیے کا پرچار کرتے رہے، اور دعوت حق دیتے رہے، اقامت دین کی تحریک آگے بڑھاتے بڑھاتے اپنی عمر گزار کر اللہ کے حضور پیش ہوگئے، جہاں وہ اپنے انکار اور اقرار کے بیانیے کی روشنی میں اجر پائیں گے۔
جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے، اقتدار ہر گز نہیں، یہ تو معاشرے کے افراد کو صالح بنانا چاہتی ہے، جماعت اسلامی معاشرے کو اقبال کی زبان میں شرافت، صداقت اور امانت کا سبق پڑھا رہی ہے اور اس کے لیے اپنی تنظیم کی بنیاد رکھنے والے دستور کی شکل میں عملی نمونہ بھی پیش کرتی ہے، مولانا مودودیؒ سے براہ راست تربیت پانے والے ایک شخص میاں طفیل محمد کا ایک واقعہ سن لیجیے، پوری جماعت اسلامی سمجھ میں آجائے گی، جنہوں نے اپنے کردار سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی، کوئی ہلہ گلہ نہیں تھا ان کی زندگی میں، سادگی، اللہ کا خوف اور جماعت اسلامی کے پیغام کے پھیلائو کی فکر، انہیں ممتاز بناتی ہے، بات بہت پرانی ہے میاں طفیل محمد مری کے دورے پر تشریف لے گئے، مری ان دنوں بھی راولپنڈی کا حصہ تھا اور آج بھی راولپنڈی ہی کا حصہ ہے، مقامی نظم کے لیے مشکل تھی کہ انہیں رات کہاں ٹھیرایا جائے، ان دنوں مری میں ایک ہی ہوٹل تھا غالباً سیسل ہوٹل، مگر وہاں کا ماحول اور رنگ و بو ایسی نہیں تھی کہ میاں طفیل محمد وہاں قیام کرتے، فیصلہ ہوا کہ وہ شفاء الحق کے ہاں قیام کریں گے وہ جماعت اسلامی کے کارکن نہیں تھے، بس نام سن رکھا تھا یوں سمجھ لیں کہ اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے اپنے بندے میاں طفیل محمد کو منتخب کرلیا تھا یہ شفاء الحق کی گواہی ہے کہ انہوں نے میاں طفیل محمد کی شیروانی کے اندورنی حصے میں کئی پیوند دیکھے، وہ خود گواہی دیتے رہے ہیں مہمان نے صبح کے وقت نماز اور تلاوت سے فراغت کے بعد تیار ہونے سے قبل جوتے صاف کرنے والا برش اور شاید پالش کی درخواست کی، میزبان نے کوشش کی اور نہایت ہی ادب کے ساتھ گزارش کی کہ وہ یہ خدمت کرنا چاہتا ہے مگر میاں طفیل محمد نے آنکھوں میں چمک، چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ میزبان کی ساری بات تحمل سے سنی اور پھر حلیم الفاظ میں منع کردیا کہ یہ میرا کام ہے وہ خود ہی کریں گے اور پھر خود ہے اپنی ہاتھوں سے اپنے جوتے صاف کیے یوں میاں طفیل محمد کا ایک رات کا قیام شفاء الحق کی زندگی بدل گیا، تبدیلی اسے کہتے ہیں اور قیادت بھی اسے ہی کہتے جو حلیم ہو، عملی ہو اور جسے بات کہنے اور سننے کا سلیقہ آتا ہو، میاں طفیل محمد نے یہ کام کردکھایا، کہ وہ مولانا مودودی کے ہاتھوں تربیت یافتہ کارکن تھے یہ ہے دل جیتنے اور دلوں پر حکمرانی کرنے کا عملی بیانیہ۔
مولانا کا ایک وصف تھا کہ وہ کبھی کسی کو غصے کی حالت میں جواب نہیں دیا کرتے تھے ہمیشہ پہلے دلیل تلاش کرتے پھر جواب دیتے، آج ہم اور ہمارے شب و روز ایک بار پھر اگست کے مہینے سے گزر رہے ہیں، کئی بار سوچا کہ پاکستان اور جماعت اسلامی کے قیام کا مہینہ ایک ہے تو ایک ان کا بیانیہ ایک کیوں نہیں ہوسکتا؟ جو بیانیہ اس وقت اہل وطن کے سامنے پیش کیا جارہا ہے اس بیانیے کی عمارت غلط بیانی، مصالحت، مفاہمت کے گارے سے تیار کی گئی ہے، کھبی کہا جاتا ہے کہ امریکا نے اقتدار سے الگ کرایا کبھی کوشش کی جاتی ہے چھپ چھپ کر ملاقات کرلی جائے، کبھی معاہدے کے لیے جاتے ہیں ہمارا چہرہ دھو دیا جائے سیاسی بیانیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے بات کی جاتی ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے بیانیے میں فرق ہے، ہماری نظر میں کوئی فرق نہیں ان سب کے بیانیے میں، سب ہر قیمت پر اقتدار کے لیے بھاگ رہے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ کوئی شمال سے حملہ آور ہے تو کوئی جنوب سے، ان سب کے محسنوں کا ایک گروہ ہے جو ان کے سیاسی بیانیوں کو اقوالِ زریں قرار دے کر معاشرے میں انہیں نجات دھندہ بناکر پیش کرتے ہیں جماعت اسلامی کا بیانیہ ہے کہ دو رنگی چھوڑ دو، اللہ کا رنگ اپنائو، اور ہمارا ساتھ دو، اگر ہماری راہ میں روڑے اٹکائے تو اللہ کے ہاں اپنا جواب سوچ لو، یہ کسی بھی لحاظ سے کمزور بیانیہ نہیں ہے یہی بیانیہ پاکستان کے نظام کے حوالے سے ہے، پاکستان قائم ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ یہاں قرآن و سنت کی حکمرانی ہوگی یہ ملک بن سکتا ہے اور سنور سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ یہاں قرآن و سنت کا بیانیہ ہی حکمران ہو۔