ہاں! ہم غلام ہیں

624

اگر کسی بھی سیاست دان کے باب میں ’’مستقل پالیسی‘‘ کی بات کی جائے تو سوال اٹھتا ہے کون سی مستقل پالیسی؟ سازشوں کے ماحول میں کیا کوئی مستقل پالیسی اختیار کی جاسکتی ہے سوائے اس کے کہ عوام کو ان کے حال پر چھوڑے رکھا جائے یا حکومتی اقدامات سے ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کی جاتی رہیں یا پھر یہ کہ ماضی میں جب کبھی انہیں جو سہولتیں دی گئیں انہیں واپس لے لیا جائے۔ قرار دیا جاتا ہے کہ لاہور ہاکی اسٹیڈیم کی زیادہ سے زیادہ گنجائش بیس ہزار تماشائیوں کی ہے جس میں 13 اور 14 اگست کی شب عمران خان نے ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ پی ٹی آئی کے مطابق جلسے کے شرکاء کی تعداد کتنی تھی یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں لیکن عمران خان کی سیاست کے سیاہ گوشوں میں سے ایک گوشہ وہ آسٹروٹرف تھا جسے جلسے کی وجہ سے بے دردی سے میدان سے نوچ کر علٰیحدہ کردیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق ایشیا کے سب سے بڑے نیشنل ہاکی اسٹیڈیم کے آسٹروٹرف اکھاڑنے سے 15کروڑ کا نقصان ہوا۔ جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ 2012 میں نواز شریف کے دور میں بچھایا گیا تھا جس کی ڈیٹ ایکسپائر ہو چکی ہے۔ ایکسپائر تاریخ کے حوالے سے جو حساسیت آسٹروٹرف کے معاملے میں ظاہر کی گئی ہے ایسا تو ہمارے یہاں ادویات اور کھانے کی اشیاء کے بارے میں نہیں کی جاتی۔ اگر جلسہ نہ ہوتا تو یقینا کئی برس نئے کھلاڑی اس ایکسپائر ٹرف پر پریکٹس کرتے رہتے۔ عمران خان کے معاملے میں اب بھی ان کے چاہنے والوں کی نظر اس بات پر لگی رہتی ہے کہ وہ کتنے ہینڈسم دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے میں پندرہ کروڑ کے نقصان کی پروا کون کرے۔ ہاں اگر یہ حرکت نواز شریف نے کی ہوتی تو عمران خان یہ ضرور پو چھتے ’’نواز شریف کیا یہ تمہارے باپ کا پیسہ تھا؟‘‘ لیکن یہ سوال عمران خان سے نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے فالوورز بڑی مسرت اور خوش دلی سے ان کے معاملے میں خود کو بے وقوف ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ویل ڈن۔ ہاکی اسٹیڈیم کے ذکر سے وہ زمانے یاد آتے ہیں جب ہم ہاکی میں نمبرون ہوتے تھے اور ہمارے سینے احساس تفاخر سے پھولے رہتے تھے۔ پھر ہمیں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ اور سیاست دانوں کی نذر کھا گئی اور ہم ایک ایسے جزیرے میں پھنس گئے جہاں تلاطم خیز موجوں سے ہمارا کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ آسٹروٹرف جیسی سخت چیز بھی نہیں۔
عمران خان کا ایک بڑا وصف یہ ہے کہ لیڈر کی حیثیت سے وہ قول کرکے مکر جانے یا بات کرکے پھر جانے کو ’’اپنا کام یہی ہے‘‘ سمجھتے ہیں۔ یوٹرن کی بے اصولی کے اصول پر ڈٹے رہنے کو وہ ایک لیڈر کی شان سمجھتے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ جب تک وہ اقتدار میں رہے امریکا کی گڈ بک میں آنے کے لیے اس طرح کوشاں رہے جیسے اس باب میں کسی نے انہیں بندوق کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ سے دو بول سننے اور سنانے انہیں ورلڈ کپ کی فتح لگتی تھی۔ اقتدار سے ہٹنے کے دنوں میں ان پر منکشف ہوا کہ وہ تو عرصے سے امریکا کے نشانے پر تھے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے لے کر پنٹا گون تک سب ان کے خلاف سازش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ حکومتوں کے خلاف سازشیں کرنا اور انہیں اقتدارسے ہٹا دینا امریکا کی چند بری عادتوں میں سے ایک ہے۔ اہل پاکستان اس کا بارہا مشاہدہ کرچکے ہیں اور اسی حساب سے امریکا سے نفرت بھی کرتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف سازش کی تخلیق کا عمل تحریک عدم اعتماد کی رات تک ہوتا رہا پھر امریکا نے تو عمران خان کو چھوڑ دیا لیکن عمران خان امریکا کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔ ہر جلسے میں وہ امریکا کے خون میں کولیسٹرول میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اب کچھ عرصے سے انہیں محسوس ہورہا ہے کہ امریکا کے خون میں تو کولیسٹرول میں اضافہ نہیں ہوا البتہ ان کے گٹے گوڈوں میں یورک ایسڈ جمع ہوتا جارہا ہے جوان کی سیاسی حرکات وسکنات اور مستقبل کو منجمد کرسکتا ہے لہٰذا امریکا کے خلاف تمام سازشی تھیوریوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر وہ ایک مرتبہ پھر امریکا کی بری عادتوں سے سمجھوتا کرنے جارہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے پشاور میں وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان اور پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی ملاقات ہوئی جس میں دونوں حکومتوں کے درمیان باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے ایک ریڈ کارپٹ تقریب میں صوبے کے پہلے دورے پر امریکی سفیر کو خوش آمدید کہا اور تعاون اور اشتراک کار پر امریکی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعلیٰ محمود خان نے کہا کہ صوبائی حکومت اور صوبے کے عوام مختلف شعبوں میں امریکی تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس موقع پر امریکا کی طرف سے 36گاڑیاں صوبائی حکومت کو تحفہ میں دی گئیں۔ یہ تقریب دو اگست کو ہوئی جس میں امریکی سفیر اور پی ٹی آئی چیف عمران خان کے درمیان (ویڈیو) ملاقات کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ چار اگست کو عمران خان اور امریکی سفیر کے درمیان یہ رابطہ ہوا جس نے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ ایک ماہ پہلے ایک دوست کے ذریعے عمران خان نے ڈونالڈ لو سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ عمران نے اپنا نمائندہ واشنگٹن بھیجا تھا تاکہ معاملات میں خلیج کو دور کیا جا سکے لیکن امریکی حکام نے اسے نظر انداز کیا اور کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ عمران خان کے ماتحت پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی نے بھی یو ایس قونصل جنرل سے ملاقات کی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان اور امریکی سفیر کی گفتگو سے پہلے ہی عمران خان کے نیچے صوبائی حکومتیں امریکا کے ساتھ مل کر کام کررہی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ پی ٹی آئی نے امریکا میں ایک پبلک ریلیشنگ فرم ہائر کی ہے جو امریکا میں تحریک انصاف کے حق میں فضا ہموار کرے گی۔ ان تبدیلیوں کو پی ٹی آئی کی سوچ کی تبدیلی کے ساتھ امریکا پر تنقید کے معاملے میں ایک یوٹرن کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
ان تمام خبروں میں حقیقی آزادی کے حصول کی وہ کوشش محسوس کی جاسکتی ہے جو پا کستان میں امریکی غلامی میں پوشیدہ ہے27مارچ کے بعد جس کے عمران خان دشمنی کی حد تک نقاد رہے ہیں۔ فوجی اڈے نہ دینے اور ایب سلوٹلی ناٹ سے ڈونالڈ لو تک عمران خان کے جس سامراج دشمن سفر کا آغاز ہوا تھا وہ یوٹرن لیتی اور کٹر پن ترک کرتی نظر آتی ہے۔ کہاں وہ بمباری اور کشت وخون کہ امریکی سفیر سے ملاقات کرنے والے عمران خان کی نظر میں غدار اور امریکن ایجنٹ تھے اور کہاں حق کی تلاش میں امریکی سفیر سے خود عمران خان کے ٹیلی فونک رابطے۔ دونوں جانب سے گفتگو کی تردید ہوئی نہ تائید۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ دونوں جانب سے پہلے ایسی ملاقاتیں خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ پھر ان کی تردید سامنے آتی ہے اور بعد میں یہ باتیں درست ثابت ہو جاتی ہیں۔ عمران خان پاکستان کے عوام کے ساتھ وہی ڈراما کرنا چاہتے ہیں جو ماضی میں کچھ عالمی رہنما کرتے رہے ہیں۔ بظاہر جو جی جان سے امریکی دشمنی کا اظہار کرتے ہیں لیکن اندروں سب سے بڑھ کر امریکی مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ امریکی سفیر سے گفتگو میںغالب یہی ہے کہ عمران خان نے کہا ہو گا کہ ’’آپ میرے ظاہر پر مت جائیں۔ عوام سے ووٹ لینے کے لیے امریکی دشمنی کا اظہار میری سیاسی ضرورت ہے لیکن عملی طور پر میں جی جان سے آپ کے ساتھ ہوں‘‘۔ ماضی میں بھی عمران خان خطے میں امریکی مفاد کے لیے ہر وہ کام کرتے رہے ہیں جو امریکا کو مطلوب تھے۔ افغانستان میں امریکا کو زمینی اور فضائی راستے دینے، مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں بھارت کے خلاف کوئی عملی قدم نہ اٹھانا، اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے سپرد کردینا اور نجانے کیا کیا۔ اب حال اور مستقبل میں بھی عمران خان یہی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں لیکن امریکی دشمنی کے پردے کی آڑ میں۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اب امریکا کو یہ دوہرا کردار بھی خوش نہیں آتا۔ اب وہ ظاہر اور باطن ہر دوجگہ مکمل خود سپردگی چاہتا ہے۔ ظاہر اور باطن میں مکمل اظہار کہ ہاں ہم آپ کے غلام ہیں۔