سرکاری چوری ڈاکے

454

پاکستانی قوم اکثر چوروں کو چور اور ڈاکوئوں کو ڈاکو سمجھتی ہے اور بات ہے بھی صحیح۔ چور چور ہیں انہیں چور ہی سمجھا جانا چاہیے کیوں کہ چوری اسی کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص دوسرے کا حق مارے، دوسرے کی چیز لے اُڑے۔ اور ڈاکا بھی اسے کہتے ہیں کہ جس کے پاس طاقت ہے اسلحہ کی یا جسمانی۔ دونوں صورتوں میں وہ کمزوروں کا مال ہڑپ کرلیتا ہے۔ سب لوگ ایسے چوروں اور ڈاکوئوں کو برا سمجھتے ہیں ان کی عزت نہیں کرتے گو ان کے سامنے خاموش رہ جائیں لیکن ہمارے ملک میں ایسے چور اور ڈاکو بھی ہیں جو معزز بھی ہیں اور لوگ ان کی عزت بھی کرتے ہیں۔ وہ چور اور ڈاکو اپنے فرائض سے غفلت برتنے والے سرکاری افسران اور ادارے ہیں۔ کہیں چوری چھپے غفلت برتتے ہیں اور کہیں اپنے اختیار کے بل پر سرعام ڈاکا مارتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سب سے پہلے پولیس کی طرف خیال جاتا ہے کہ یہ اپنے فرائض ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کرتی۔ درجنوں وارداتوں میں خود پولیس اہلکاروں کے ملوث ہونے کی خبریں سامنے آچکی ہیں اور محکمہ ان کے خلاف کارروائی بھی کرچکا ہے۔ لیکن ایک اور شعبہ ہے جو عوام کو بری طرح پریشان کرتا ہے۔ وہ شہری اداروں کا شعبہ ہے۔ ان میں بلدیات سے متعلق تمام ہی محکمے ہیں۔
اگر پانی کی فراہمی کے محکمے کو دیکھا جائے تو کیا یہ محکمہ لوگوں تک پانی پہنچانے میں کامیاب ہے۔ ممکن ہے وہ یہ عذر پیش کردے کہ پانی ہے ہی نہیں۔ یعنی پانی کی فراہمی کے لیے پانی کا ہونا بھی تو ضروری ہے، یہ ذمے داری صوبائی حکومت کی ہے۔ وہ پانی کے منصوبوں پر کام ہی نہیں کرتی۔ اگر کوئی اس صورت حال پر ان اداروں کے پانی کے بل ادا نہ کرے تو اسے ڈیفالٹر یا نادہندہ کہا جاتا ہے۔ اسے اچھا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ نظری طور پر تو یہ بات
درست ہے اگر بل ادا نہ کرنے والا شہری اچھا نہیں تو لوگوں کو پانی فراہم کرنے میں ناکام ادارے کو اور اس کے افسران کو کیا کہا جائے۔ بات صرف ایک محکمے کی نہیں ہے۔ اسی ادارے کا دوسرا شعبہ سیوریج کا بھی ہے، پورے شہر میں سیوریج لائنیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ گٹر کے ڈھکن غائب ہیں۔ لائن چوک ہے۔ برساتی نالوں پر تجاوزات کا ڈاکا الگ ہے لیکن کام چوری الگ مسئلہ ہے۔ اب کوئی سیوریج کمپنی کا بل نہیں دے تو وہ خراب ہے لیکن سیوریج نظام ٹھیک نہ کرنے والوں کو کیا کہیں گے۔ گٹر کی وجہ سے جابجا سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں۔ ان کے پاس تو یہ بہانہ بھی نہیں کہ حکومت نے کام سے روک دیا ہے۔ صرف کراچی کی بڑی شاہراہوں پر سیکڑوں مقامات ایسے ہیں جہاں کئی کئی برس سے گٹر بہہ رہے ہیں۔ متعلقہ اداروں کے پاس تو انسپکٹرز اور ایک ٹیم ہوتی ہے جو ان مقامات کی نشاندہی کرتی ہے۔ لیکن اب حالت یہ ہے کہ شہریوں نے اسے بھی اپنا نصیب تسلیم کرلیا ہے۔ صرف یونیورسٹی روڈ پر جامعہ کراچی سے مزار قائد تک درجن بھر مقامات ایسے ہیں جہاں ٹریفک چیونٹی کی رفتار سے چلنے پر مجبور ہوتا ہے۔ این ای ڈی کے فوراً بعد پل سے پہلے سڑک پر کئی سال سے گڑھے پڑے ہوئے ہیں۔ اسی پل کے اُترتے ہی بائیں جانب سے آنے والی سڑک میں آٹھ دس انچ کے گڑھے بھی پڑے ہوئے ہیں۔ یہاں سے آگے سفاری پارک کے سامنے بھی یہی صورت ہے۔ اور یہ دو مقامات گزشتہ پانچ برس سے اسی طرح ہیں۔ مہینے دو مہینے کے لیے کبھی سڑک ہموار ہوجاتی ہے، آگے نیپا کے پل سے پہلے اور نیچے سڑک ادھڑی ہوئی ہے۔ یہ کیفیت دونوں جانب ہے اور یہ مقام بھی کئی برس سے چند ایک مہینوں کے سوا اسی طرح ہے۔ یہاں سے آگے سبزی منڈی (پرانی) کے سامنے ایک گڑھا ایک ماہ قبل پڑ گیا تھا اب تک سڑک نہیں بنی۔ اور آگے چلیں نیو ایم اے جناح روڈ پر مزار قائد جانے والی سڑک پر گڑھا پڑا تھا وہ اب بھی درست نہیں ہوسکا ہے۔ اور مزار قائد کے ساتھ پیپلز چورنگی کا بھی یہی حال ہے۔ یہ احوال صرف ایک سڑک کا ہے۔ فیڈرل بی ایریا، نیو کراچی، کورنگی انڈسٹریل ایریا سب کا حال برا ہے۔ کشمیر روڈ کو تو روڈ ٹو کشمیر کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔
ان سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے موٹر سائیکل سوار رانگ سائڈ سے نکلنے کی کوشش میں پکڑے جاتے ہیں، ان کا چالان ہوجاتا ہے، ویسے تو یہ موٹر سائیکل والے عموماً قانون کی پابندی نہیں کرتے ہر لین میں موٹرسائیکل دوڑاتے ہیں اور غصہ بھی خود ہی کرتے ہیں لیکن جہاں سڑک شہری اداروں کی وجہ سے ٹوٹی ہوئی ہو، وہاں گاڑی یا موٹر سائیکل والے اگر رانگ سائڈ جائیں تو چالان ہوجاتا ہے۔ ہونا بھی چاہیے لیکن سڑک نہ بنانے گڑھے نہ بھرنے والوں کا چالان کون کرے گا۔ پولیس والا چالان کے لیے روکتا ہے اور سو پچاس روپے جیب میں رکھ کر چھوڑ بھی دیتا ہے۔ حالاں کہ اسے چالان پر کمیشن بھی ملتا ہے۔ لیکن اس کے حق پر بھی ڈاکا مارا جاتا ہے۔ کئی کئی مہینے تک انہیں چالان کے پیسے نہیں ملتے تو پھر وہ بھی چھوٹی چوری کرلیتے ہیں۔ اگر آپ کبھی صدر کے علاقے میں کسی بھی جانب سے جائیں اور ایمپریس مارکیٹ کے سامنے سے گزریں تو صدر دوا خانے کی طرف جانے والی سڑک پر کئی برس سے پانی کھڑا ہوجاتا ہے اور اسی سڑک پر ریگل جانے والی سڑک پر بائیں جانب گٹر اور بارش کا پانی کھڑا رہتا ہے۔ کیا متعلقہ اداروں کو ان مقامات کا علم نہیں… ایسا تو ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اخبارات کئی کئی مرتبہ ان مقامات کی نشاندہی مع تصویر بھی کرچکے ہیں۔ لیکن مسئلہ وہی کام چوری کا ہے۔
کے ایم سی کو دیکھ لیں ایک کام بارش کے فوراً بعد یا پہلے بھی کیا جاتا تھا اسے پیچ ورک کہا جاتا ہے۔ یہ کام اس لیے ہوتا تھا کہ بارش کا پانی آسانی سے گزر جائے کہیں کھڑا نہ ہو۔ لیکن یہ کام ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایک عقدہ یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ کہیں بھی کوئی سڑک کھودی جاتی ہے تو اس کے لیے سڑک کھودنے سے قبل روڈ کٹنگ چالان جمع کرایا جاتا ہے۔ خواہ کوئی ادارہ یہ کام کرے یا کسی عمارت کے مکین اپنے لیے پانی کی لائن لے رہے ہوں سب کو روڈ کٹنگ چالان جمع کرانا ہوتا ہے۔ اور یہ رقم اتنی ہوتی ہے کہ مذکورہ حصے کی مرمت ہوجائے لیکن کئی برس سے یہ کام ہوتا نظر نہیں آرہا۔ البتہ روڈ کٹنگ چالان جمع ہوتے ہیں۔ گویا جس مد میں پیسہ جمع کیا جاتا ہے اس میں خرچ نہیں ہورہا۔ یہ سارے کام سرکاری ادارے کرتے ہیں۔ اپنے فرائض سے غفلت جان بوجھ کر کام نہ کرنے والے افسران کو کیا کہا جائے۔ کہیں کہیں سڑک کا گڑھا بھرا جاتا تو اس قدر بے ڈھب کر گاڑی جھولنے لگے صارف یا شہری بل ادا نہ کرے تو جرمانہ لگ کر آتا ہے، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرے تو چالان ہوتا ہے۔ کے الیکٹرک تو بجلی کاٹ دیتی ہے لیکن سرکاری ادارے فرائض سے غفلت برتیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی وہ پھر بھی معزز افسر رہتے ہیں۔ یہ سرکاری چوری ڈاکے کب تک چلیں گے۔