مقدس فریضہ

532

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس کو مشورہ دیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ انگریز کی کتاب کو کسی الماری میں رکھ کر اللہ کی کتاب اٹھالیں اور احکامات خداوندی کے مطابق اللہ کی نیابت کا مقدس فریضہ سر انجام دیں تو مہنگائی، بے روزگاری، بارش، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے نجات مل جائے گی کیونکہ انسانوں کے تمام مسائل و مشکلات کی جڑ اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہوتی ہیں جو لوگ خدا سے جنگ کرنے کی سعی نا مشکور کرتے ہیں وقت انہیں تاریخ کے ردی دان میں پھینک دیتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنا چاہیے کہ زندگی خدا کی امانت ہے اور یہ امانت تھوڑے سے وقت کے لیے سپرد کی گئی ہے ایک دن ہم سب کو اللہ کے عدالت میں پیش ہونا ہے وہاں پیشی پر پیشی نہیں دی جائے گی فیصلہ سنایا جائے گا۔ اللہ نے سود کو حرام قرار دیا ہے جو لوگ اس حرام کو حلال بنانے کے لیے مختلف تاویلات اور دلائل دیتے ہیں اللہ سے جنگ کرتے ہیں ہمارا قومی المیہ یہی ہے کہ حکمران طبقہ دشمنوں سے لڑنے کے بجائے اللہ سے جنگ پر آمادہ رہتا ہے شریعت عدالت نے سود کو حرام قرار دیا تو میاں نواز شریف جو دین داری کے علم بردار دنیا دار بن گئے اور اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کر دی یہ کیسی عجیب اور حیرت انگیز بات ہے کہ صوم وصلوۃ کے پابند شخص خدا کے فیصلے اور فرمان کے خلاف اپیل دائر کر دی اسی لیے بعض علماء کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اللہ کی پکڑ میں آگئے ہیں اللہ کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے اس سے چھٹکارا بہت مشکل ہے البتہ توبہ کا دروازہ کھلا ہو اور توبہ کی توفیق نصیب ہو جائے تو یہ مشکل آسان ہو جاتی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر ایک مدت سے مقتدر قوتوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پاکستان میں تمام مروجہ اور غیر مروجہ نظام آزما لیے گئے ہیں ایک موقع اسلامی نظام کو بھی دیا جائے یہ ایک ایسا آپشن ہے جو ناکامی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا مگر بد نصیبی یہ بھی ہے کہ اس آپشن پر عمل درآمد کرانے والوں کے کانوں پر دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں اور دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے ایسے لوگ حق بات کو قبول نہیں کیا کرتے۔ عمران خان نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ جرائم میں ملوث اشرافیہ کے خلاف فوراً ایکشن لے ان پر دائر مقدمات کی سماعت کرے اور قوم کو ان چوروں لٹیروں اور ڈاکوئوں سے نجات دلائے۔ عدالت کی ذمے داری ہے کہ قانون کے مطابق فیصلہ سنائے اور جہاں تک عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کا تعلق ہے تو یہ کام حکومت اور انتظامیہ کا ہے اگر عدلیہ ایسے فیصلے پر عمل درآمد کراتی ہے تو یہ قانونی نہیں صواب دیدی اختیار کہلاتا ہے چلیے مان لیتے کہ عدلیہ کو اپنے فیصلوں پر عملد رآمدد بھی کروانا چاہیے تو پھر اس اختیار کو سیاست دانوں اور حکمرانوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے اس اختیار سے بھی عوام کو بھی مستفید ہونے کا حق دیا جائے فوجداری مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں اور جب فیصلہ سنا دیا جاتا ہے تو عمل درآمد کے لیے پھر عدلیہ کے دروازے پر دستک دینا لازم ہو جاتا ہے۔
ایک جج صاحب نے اپنے بیٹے کو سزائے موت سنا کر استعفا دے دیا کیونکہ جب قتل کی واردات ہوئی تھی ملزم اپنے والد محترم کے ساتھ گھر پر تھا مگر شہادتوں کے مطابق وہ موقع واردات پر موجود تھا اور قتل کا مرتکب ہوا تھا مستعفی ہونے کے بعد جج صاحب نے بتایا کہ واردات کے وقت ملزم ان کے ساتھ تھا مگر فیصلہ شہادتوں اور قانون کے مطابق دیا جاتا ہے ضمیر کے مطابق نہیں حالاں کہ بیٹے کو سزائے موت سناتے وقت ان کے ضمیر نے بہت چرکے لگائے ہوں گے شفقت پدری نے بھی جذبات کے سمندر میں طوفان برپا کیا ہوگا مگر قانون کے سامنے کسی کی بھی نہیں چلتی عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو دیانت دار سمجھتے ہی نہیں حالانکہ ان کی بد دیانتی کا مقدمہ امریکا کی ایک عدالت میں سیتا وائٹ بنام عمران خان کی باز گشت سے ابھی تک گونج رہی ہے عمران خان کے عقیدت مند کہتے ہیں کہ سیتا وائٹ ان کی جوانی کی غلطی تھی اسے زیر بحث نہ لایا جائے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کی گنجائش ہی نہیں مگر دیانت دار اور با کردار شخص اپنی غلطی کو تسلیم کر کے معذرت کر لیتے ہیں اصل غلطی غلطی پر اڑ جانا ہے جو لوگ اپنی غلطی پر اڑ جائیں وہ باکردار اور دیانت دار نہیں کہلاتے ٹیریان عمران خان کی بیٹی ہے جسے جوانی کی غلطی کہا جا رہا ہے مگر عمران خان کی غلطی کی سزا وہ کیوں بھگتے اس حقیقت کا ادراک جمائمہ خان نے کر لیا ہے اس نے ٹیریان کو بیٹی کا درجہ دے دیا ہے اب ایک ہی گھر میں اپنے بھائیوں کے ساتھ رہ رہی ہے اگر عمران خان اپنی جوانی کی غلطی کو تسلیم کر لیں تو کوئی قیامت نہیں آئے گی زمین پھٹے گی نہ آسمان گر ے گا البتہ ٹیریان کو اس کا حق مل جائے گا سو، عمران خان کے عقیدت مندوں سے کہا جا سکتا ہے کہ جو شخص اپنی اولاد کا نہ ہوا وہ کسی اور کا کیسے ہو سکتا ہے۔