شہباز گل کیا گل کھلا رہے ہیں

788

شہباز گل صحافی ہیں نہ دانشور، یہ سیاستدان بھی نہیں ہیں ان کا کوئی جاگیردارانہ پس منظر بھی نہیں ہے بس ان کی ایک ہی خوبی ہے کہ یہ تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ عمران خان کے بہت قریبی دوست ہیں پی ٹی آئی کے بعض سینئر سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ شہباز گل جیسے لوگ وہ ہیں جن کی عمران خان بات مانتے ہیں اور اسی وجہ سے کچھ لوگ حسد کا بھی شکار ہوتے ہیں کہ ایک غیر منتخب فرد کی اہمیت ان تحریکی ساتھیوںسے زیادہ ہو گئی ہے جنہوں نے برسوں تحریک انصاف کے لیے کام کیا اپنا وقت اور مال دیا جدوجہد کی ماریں تک کھائیں وہ پیچھے کی صف میں چلے گئے اور وہ لوگ آگے آگئے جن کا عمران خان کی سیاسی جماعت کو بنانے اور سنوارنے میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ ان کا صرف ایک ہی معیار ہے کہ وہ عمران خان کے دوست ہیں۔ شہباز گل کا تعلق فیصل آباد کے ایک گائوں سے ہے اسی گائوں سے ابتدائی تعلیم کے بعد شہر میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہا پڑھنے کے لیے باہر گئے اور اہلیت، صلاحیت اور لیاقت سے ایک اچھا مقام حاصل کیا، یہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں لکچرر بھی رہے۔ ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان ان کی بات اتنی کیوں مانتے ہیں جیسا کہ تحریک انصاف کے بعض ساتھیوں کا کہنا ہے، میرے خیال میں اس کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ یہ لوگ پھر عمران خان کی وہ بات بھی مان جاتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں جو تحریک انصاف کے دیگر رہنما نہیں مانتے۔
اس کی ماضی قریب میں ایک مثال سے بات واضح ہو جائے گی اسی سال ماہ اپریل کے اوائل میں جب اسمبلی کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد کا سلسلہ چل رہا تھا، عمران خان قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو ڈٹ جانے کی سختی سے ہدایت کررہے تھے لیکن اسپیکر صاحب اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتے تھے کہ اپنے لیڈر کا پوری طریقے سے کہنا مان سکیں چنانچہ وہ استعفا دے کر باہر آگئے اور پھر بقیہ کارروائی ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے پوری کی۔ شہباز گل نے کن کن مواقع پر اپنی باتیں منوائیں ہمیں اس پر کوئی بحث نہیں کرنا ہے اور نہ ہی یہ جاننے کے ضرورت ہے کہ عمران خان نے اپنی وہ کون کون سی باتیں ان سے منوائیں ہیں جو کسی اور ساتھی نے مان کر نہیں دیا۔ ن لیگ کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا ایک بیان نظر سے گزرا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ شہباز گل نے چینل میں وہی تحریر پڑھی جو عمران خان نے انہیں لکھ کر دی تھی، قطع نظر اس بات کے کہ مریم اورنگزیب کا یہ بیان جھوٹا ہے یا سچا۔ اور یہ کہ شہباز گل نے خود سے یہ باتیں کی ہیں یا کسی کہنے پر ہیلی کاپٹر کے شہدا کے بارے میں قابل اعتراض باتیں کیں جیسے کچھ بھی اور جو کچھ بھی ہوا اس نے ملکی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کردیا ایک سوال یہ بھی لوگ اٹھاتے ہیں کہ عمران خان کا یہ ریکارڈ ہے کہ وہ بہت کم کسی کی نماز جنازہ میں یا بعد میں مرحوم کے گھر تعزیت کے لیے جاتے ہوں۔ ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انتقال ہوا تو ان کی نماز جنازہ وزیر اعظم ہائوس سے چند قدم کے فاصلے پر ہو رہی تھی لیکن وزیر اعظم عمران خان ڈاکٹر قدیر کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے لیکن ابھی کچھ دنوں قبل ہیلی کاپٹر کے حادثے میں شہید ہونے والے جنرل سرفراز کے گھر تعزیت کے لیے گئے تھے یہ ایک اچھا ٹرننگ پوانٹ ہے۔
جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو ان کی اس وقت کی حزب اختلاف کے لوگ یعنی پی ڈی ایم کے رہنما یہ کہتے تھے ہمیں عمران خان کو اقتدار کے تخت سے اتارنے کے لیے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی۔ عمران خان کے لیے خود عمران خان ہی کافی ہیں یہ اپنی غلطیوں کے بوجھ تلے دب کر خود اقتدار سے محروم ہو جائیں گے۔ پھر عمران خان کی خوش قسمتی دیکھیے کہ اقتدار سے محرومی والے دن سے آج تک ان کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔ قدرت عمران خان کا ساتھ دینا چاہتی ہے اور دے رہی ہے لیکن عمران خان خود عمران خان کا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔ عوام میں ان کی مقبولیت کا ایک ثبوت 17جولائی کے پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں جن میں ن لیگ کو صرف تین نشستیں مل سکیں ایک نشست پر دوبارہ گنتی ہونا ہے ایک نشست آزاد امیدوار نے جیتی اور پندرہ نشستوں پر پی ٹی آئی کامیاب ہوئی، پوری دنیا اس بات کو تسلیم کررہی ہے کہ عمران خان پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں اور اسی وجہ سے موجودہ حکمران ٹولہ جلد انتخاب کرانے کے حق میں نہیں ہے وہ چاہتا ہے کہ سال سوا سال کی جو آئینی مدت ہے اس کے بعد انتخابات ہوں تاکہ اس درمیان میں عوام کو کچھ ڈیلیور کرسکیں تاکہ اگلے انتخاب میں عمران خان کا مقابلہ کیا جاسکے، دوسری طرف عمران خان چاہتے ہیں کہ ملک میں فوری انتخاب منعقد کیے جائیں تاکہ وہ دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرسکیں۔
یہ ایک ایسا نازک مرحلہ ہے جس میں عمران خان کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ مقبول لیڈر کو اسٹیبلشمنٹ سے متصادم کروانا چاہتے ہیں ہار جیت کسی کی بھی ہو ایک کی چونچ غائب ہوگی دوسرے کی دم، دونوں قوتیں چاہے جیتیں یا ہاریں لیکن تھک ضرور جائیں گی۔ شہباز گل نے عدالت میں اپنے جرم کا اقرار کرلیا ہے آخری اطلاع تک عدالت نے پولیس کی مزید ریمانڈ کی درخواست مسترد کرکے انہیں جیل کسٹڈی میں دے دیا۔
شہباز گل عمران خان کے چیف آف اسٹاف ہیں لہٰذا وہ جو کچھ کہتے ہیں عمران خان کی ترجمانی کرتے ہیں اس لیے یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ شہباز گل نے جو کچھ کہا وہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ آج ہمارا حکمران ٹولہ خوشی سے اپنی بغلیں بجا رہا ہے کہ اب اونٹ پہاڑ تلے آیا ہے، آج ایک خبر یہ بھی شائع ہوئی ہے کہ شہباز گل کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے کا امکان ہے یہ مسئلہ چونکہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لیے براہ راست اس پر کچھ بات کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا، ہمارا کوئی سیاست دان دودھ کا دھلا ہوا نہیں ہے سب جانتے ہیں کہ یہ کس نے کیا کہا تھا۔