اور پاکستان بن گیا.75 سال پرانی یادیں(آخری حصہ)

686

میں نے پاکستان کے حق میں رائے دے دی تھی۔ اب باقاعدہ آرڈر آگیا ہے اور میرا لاہور ٹرانسفر ہوگیا ہے۔ آئندہ اتوار کو میری پاکستان روانگی ہے۔ میں نے پہلے آپ لوگوں کو اس لیے نہیں بتایا کہ آپ کی مخالفت سے میرا ارادہ ڈانواں ڈول ہوجاتا جب کہ میں ہر حال میں پاکستان جانا چاہتا تھا، پاکستان میرے خوابوں کا وطن ہے اس کے لیے مسلمانوں نے بڑی قربانی دی ہے۔ اب پاکستان بن گیا ہے تو ہمیں وہاں جانا چاہیے، یہاں ہندو ہمیں نہیں رہنے دیں گے آپ کو کیا معلوم ریلوے میں میرے ہندو ساتھی مجھے کن نظروں سے دیکھتے ہیں‘‘۔
بھائی جان کی اس تقریر سے گھر میں سناٹا چھا گیا۔ اماں بڑی بے چینی سے ہاتھ ملنے لگیں جیسے کوئی بہت قیمتی چیز ان کے ہاتھ سے نکلی جارہی تھی۔ بات بھی سچ تھی، بیس بائیس سال کا گورا چٹا خوبصورت بیٹا پردیس جارہا تھا، نجانے کس کے ہتھے چڑھ جائے۔ ان کی پریشانی بجا تھی لیکن انہوں نے اس پریشانی کو اپنے اوپر غالب نہ آنے دیا۔ بیٹے کو پاس بلایا اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، گلے لگا کر بڑی دیر تک پیار کیا، پھر بولیں ’’بیٹا تمہاری یہی خوشی ہے تو ضرور جائو لیکن یاد رکھو میں تمہارے بغیر زیادہ دن زندہ نہیں رہوں گی‘‘ بھائی جان بھی جذباتی ہوگئے اماں کے پائوں پکڑ کر بولے ’’اماں گھبرائو نہیں میں بہت جلد آپ سب لوگوں کو اپنے پاس بلالوں گا‘‘۔
ابا نے بھی بھائی جان کو گلے لگایا انہیں کچھ نصیحتیں کیں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا کی، ہم تین بھائی اور بہن بھی بھائی جان سے لپٹ گئے اور ان سے تقاضا کرنے لگے کہ ہمیں ساتھ لے کر جائیں۔ انہوں نے باری باری سب کو گلے لگایا اور تسلی دی کہ وہ بہت جلد سب کو اپنے پاس بلالیںگے۔ بھائی جان کے پاکستان جانے کی خبر عام ہوئی تو عزیز رشتے دار اور محلے کے لوگ ان سے ملنے اور مبارکباد دینے کے لیے آنے لگے۔ بڑی آپا قریب ہی رہتی تھیں۔ بھائی جان جب تک رخصت نہیں ہوئے ہمارے پاس ہی رہیں اور اماں کو دلاسا دیتی رہیں۔
بھائی جان نے لاہور پہنچتے ہی بذریعہ پوسٹ کارڈ اپنے بخیریت پہنچنے کی اطلاع دی۔ اس زمانے میں ٹیلی فون بھی نہیں تھا کہ ان کی لاہور آمد کی اطلاع فوراً مل جاتی۔ پوسٹ کارڈ آنے میں کئی دن لگ گئے اس دوران ماہی بے آب کی طرح تڑپتی رہیں کھانا پینا چھوڑ دیا، خط آیا تو تسلی ہوئی، پھر خطوں کا تانتا بندھ گیا ہماری طرف سے بس یہی تقاضاہوتا تھا کہ جلدی پاکستان بلایا جائے۔ بھائی جان جواب میں بتاتے کہ وہ پوری فیملی کے لیے پرمٹ (اجازت نامہ) بنوانے کی کوشش کرہے ہیں جونہی بن گیا وہ رجسٹری کردیں گے۔ اس کام میں کئی ماہ لگ گئے آخر رجسٹری ملی تو ہماری خوشیوں کا ٹھکانا نہ تھا۔ پاکستان جانے کی تیاری شروع ہوگئی الوداعی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ابا کے ہندو دوست ان سے کہنے لگے ’’رحمن صاحب جو ہونا تھا ہوگیا اب تو حالات معمول کے مطابق ہیں پھر آپ لوگ کیوں جارہے ہیں؟‘‘۔
ابا نے جواب دیا ’’میرا بڑا بیٹا پاکستان جا چکا ہے اب ہمارا جانا بھی مقدر ہوگیا۔ ہم ہمیشہ سے پاکستان کے حامی تھے آپ لوگ کبھی اس بات کو بھلا نہیں سکیں اور وقت کے ساتھ ساتھ رویے تلخ ہوتے جائیں گے اس لیے بہتر ہے اچھے ماحول میں رخصت ہوجائیں‘‘۔
آخر الٰہ آباد سے جدائی کی گھڑی آپہنچی اور ہم لوگ 1949ء کے اوائل میں اپنے نئے وطن پاکستان آگئے۔ آج اس وطن کی جو بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا، پچھترویں سالگرہ منارہے ہیں۔ اللہ اس کی حفاظت فرمائے جسے برباد کرنے میں اہل وطن نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔