آزادی کے بجائے انحصار کی خبریں

1102

پاکستانی قوم کو عین جشن آزادی والے دن یہ خبر سنائی گئی ہے کہ آئندہ ہفتے تین ارب ڈالر کی سعودی امداد کی تجدیدہوجائے گی۔ اس طرح آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری ہوگئی۔ وزارت خزانہ نے خبر دی ہے کہ پاکستان کی جی ڈی پی 383 ارب ڈالر ہوگئی ہے اور غریبوں کو یہ خوشخبری بھی دی گئی ہے کہ فی کس آمدنی 1798 ڈالرز تک پہنچ گئی ہے۔ یہ تمام خبریں امریکی جریدے بلوم برگ کے ذریعے پاکستانی قوم کو سنائی گئی ہیں۔ ظاہر ہے ان خبرو ں ںپر حکمران خوشیاں منارہے ہیں اور فخریہ یہ کہتے نظر آئیں گے کہ ہم نے پاکستان کی معاشی تنگی دور کردی ہے، اب پاکستان ترقی کرے گا اور یہ خبر گزشتہ ستر برس سے پاکستانی قوم کو صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، نگراں وزرائے اعظم اور تمام وزرائے خزانہ دیتے آرہے ہیں۔ اب تک تو پاکستان ترقی کی تمام منازل عبور کرکے بیس پچیس سال آرام کی منزل میں ہونا چاہیے تھا لیکن افسوسناک معاملہ یہ ہے کہ آزادی کی 75 ویں سالگرہ منانے کے موقع پر قوم کو انڈیپنڈنس کے بجائے ڈیپینڈنس کی خبریں دی جارہی ہیں آزادی کے بجائے دوسروں پر انحصار پر فخر کیا جارہا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی مد میں ماہانہ 100 ملین ڈالر دس ماہ تک دیے جائیں گے۔ ان ساری خبروں میں کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ پاکستان کہاں سے یہ ساری چیزیں پیدا کرے گا۔ ظاہر ہے سب مصنوعی ہوگا۔ ایک اشارے پر سعودی رقم پاکستان سے واپس لے لی جائے گی۔اور پیٹرولیم مصنوعات پر ڈالر کسی بھی وقت روکے جا سکتے ہیں۔ اور عام آدمی اب اپنی فی کس آمدنی ڈالرں میں ناپتے ہوئے فخر کرے گا۔ تقریباً 18 سو ڈالر کا مطلب ہی کیا ہے۔ یہ تقریباً چار لاکھ روپے سالانہ ہے۔ کیا یہ حقیقت ہے کہ اوسط آمدنی اتنی ہی ہوگئی ہے۔ لوگوں کے اردگرد 20 ہزار روپے آمدنی والے اور تیس ہزار والے بے تحاشا لوگ گھوم رہے ہیں۔ اسکول ٹیچرز، دفاتر میں کلرک، چپڑاسی، چوکیدار، ڈرائیور، خانساماں کیا ان سب کی آمدنی کو بھی گنا گیا ہے۔ جو طریقہ فی کس آمدنی ناپنے کا ہے اس میں کن لوگوں کو رکھا جاتا ہے۔ یہی فی کس آمدنی کبھی کبھی اس انداز سے ناپی جاتی ہے کہ ملک کے لوگ شرمندہ ہوتے ہیں کہ ہماری آمدنی اتنی کم ہے۔ حقائق تو اور بھی تلخ ہیں دوسری طرف وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ایک عجیب بات کی ہے کہ تسلیم کرتا ہوں کہ نوجوان نسل کو اس کا حق نہیں دے سکے۔ آج قوم کو مایوسی ہے، بحران کا سامنا ہے، آج مالی محتاجی گویا ہماری شناخت بن گئی ہے، جس کا ہمارے بزرگوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ان سب اعترافات کرنے کے بعد وزیراعظم فرماتے ہیں کہ خلوص دل سے ایک بار پھر میثاق معیشت کی پیشکش کرتا ہوں، شہباز شریف صاحب عمر کے اعتبار سے تو آپ خود بھی قوم کے لیے بزرگ ہیں، آپ سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے، آپ نے وہاں کے لوگوں کو سونے میں کھلایا ہے یا انہیں بھی غربت ہی میں دھکیلا گیا۔ دوسرے بزرگ وزیراعظم کے بڑے بھائی میاں نواز شریف ہیں وہ بھی تین مرتبہ وزیراعظم اور اس سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب رہے۔ انہوں نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ قوم کو مایوسی میں دھکیلا جارہا ہے۔ اتفاق سے تیسرے بزرگ آصف علی زرداری بھی آج کل وزیراعظم کے ہمرکاب ہیں اب ان تین بزرگوں کے بعد قائداعطم، لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین وغیرہ کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں ان کے بزرگ جنرل ضیاالحق تھے اس کے بعد 1988ء سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ باریاں لیتے رہے ہیں اور قوم قرضوں اور محتاجی کے دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔ جس مشکل سے قرض مل رہاہے اس سے تو اچھا تھا کہ قوم کو خود انحصار ی کی منزل پر لے جانے کی کوشش کی جاتی۔ اس میں بھی اتنی ہی مشکل ہوتی لیکن ہر قدم پر ایک گرہ کھتی کھلتی جاتی ۔ حال تو یہ ہے کہ زرعی ملک میں کھاد نہیں، پانی نہیں، مارکیٹ تک پہنچنے کے لیے سڑکیں نہیں، صرف قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لینے کی پالیسی کب تک چلے گی۔ وزیراعظم صاحب میثاق معیشت کی باتیں کرنے کے بجائے حکمرانوں کی عیاشی ختم کریں، سامان تعیش لگژری گاڑیوں اور بلیوں، کتوں کی خوراک کی درآمد بند کریں، ملکی صنعتوں کا پہیہ چلائیں، خود انحصاری حاصل کریں۔ اب تو موجودہ اور سابق حکمران کسی کو الزام دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں، انہوں نے اپنے اپنے دور میں قوم کے لیے کوئی اچھاکام نہیں کیا۔ قرضوں سے جان چھڑا کر ہی ملک کو ترقی دی جاسکتی ہے۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی