کیا عمران خان نااہل ہورہے ہیں؟

638

شہباز گل کی گرفتاری پر بات کرتے ہوئے عمران خان اعتماد سے محروم دکھائی دے رہے تھے۔ شہباز گل نے اے آر وائی پر ٹیلی فونک ”خطاب“ میں جس طرح فو ج میں بغاوت کروانے اور ادارے کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے وہ ایسا عمل نہیں ہے سیاسی میدان میں جس کا جواب دیا جائے بلکہ آئین اور قانون کو حرکت میں لاکر ہی ایسی کوششوں سے نمٹا جاتا ہے۔ فوج میں سپاہی سے لے کر لانس نائیک اور بریگیڈئر تک سب پی ٹی آئی کے سپورٹرز ہیں۔ نچلی کمان کا فرض ہے کہ وہ اعلیٰ کمان اور اپنے آفیسرز کا کوئی غلط اور غیر قانونی حکم نہ مانیں، یہ فوج میں بغاوت کروانے کی کوشش نہیں تو اور کیا ہے؟ اس کے بعد کیا شہباز گل کو گل دستے پیش کیے جاتے؟۔ عمران خان نے اس پر معذرت کرنے کے بجائے قرار دیا کہ فوج اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو لڑوانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اور خود عمران خان کے علاوہ ایسا کون کررہا ہے؟ اس مہینے کے محض ابتدائی دس دنوں کی بات کر لیجیے: شہداء کے خلاف نفرت انگیز مہم کس نے چلائی؟ اے آر وائی پر فوج میں تفریق اور بغاوت کی سازش کس نے کی؟
2010 کے بعد ہی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کا اپنے سیاسی کور (Cover) کے لیے انتخاب کر لیا تھا۔ ایسا پرانے سیاست دانوں کی صفائی اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی باریوں اور آوت جاوت سے نجات کے لیے کیا گیا تھا۔ عمران خان کو ایسی جھاڑو سمجھا گیا جس سے ہر طرف صفایا کیا جا سکتا تھا۔ اُدھر طاقت کی ہوس میں مبتلا عمران خان بھی اوپر آنے کے لیے کسی طاقتور سہارے کی تلاش میں تھے۔ وہ کبھی متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتے تو کبھی پرویز مشرف سے پینگیں بڑھاتے۔ جنرل حمید گل سے لے کر جنرل فیض حمید تک جگہ جگہ انہوں نے جال پچھائے۔ جال بننے اور جال بچھانے کی ان کی مہارت چار برس پہلے کامیابی سے ہمکنار ہوئی جب اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے سازش کرکے نواز شریف کو ٹیکنیکل بنیادوں پر ناک آؤٹ کرکے اقتدار کے ایوان سے نکال باہر کیا اور ان کی جگہ عمران خان کو دے دی گئی۔ اس کے بعد دونوں طرف مسکراہٹیں اور ایک پیج پر ہونے کی سرخوشی غالب رہی۔ عمران خان کو کھل کر موقع دیا گیا کہ وہ ایک ایک مخالف سیاست دان کو اپنی منتقم مزاجی کا نشانہ بناسکیں۔ اسی دوران جنرل باجوہ نے ہینڈ سم جینئس سے اپنی ایکسٹینشن بھی منظور کروالی۔ جنرل فیض حمید کی ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے رخصتی اور کور کمانڈر پشاور کی حیثیت سے تقرر اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان پیدا ہونے والی تلخی کی ہماری ماضی قریب کی تاریخ کا حصہ ہے۔ جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے اوپر سے اپنا دست شفقت اٹھا لیا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب پی ڈی ایم عصائے سلطانی کے حصول کی جدوجہد میں کامیاب ہوسکتی ہے اور ایسا ہی ہوا۔ ایک کامیاب آئینی اور قانونی تبدیلی کے ذریعے وہ کچھ ہو گیا آئین، قانون اور عدالتی فیصلوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والا طاقتور عمران خان جس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
عمران خان کی حکومت مفروضوں کی حکومت تھی۔ کسی نے ان سے این آر او نہیں مانگا لیکن اقتدار کے پہلے دن سے لے کر آخری دن تک وہ کسی کو این آر او نہیں دوں گا کی تکرار کرتے رہے۔ امریکا نے ان سے کبھی اڈے نہیں مانگے لیکن وہ سوتے جاگتے ایب سلوٹلی ناٹ دہراتے رہے۔ کسی ایک چور کو پکڑ سکے اور نہ دھیلا برآمد کرسکے لیکن یہ کہتے کبھی نہ تھکے کہ کسی چور کو نہیں چھوڑوں گا۔ اقتدار سے ہٹنے کے بعد ان کی مفروضوں کی دنیا میں عالمی وسعتیں پیدا ہوگئیں۔ وہ امریکا کے لیے اتنا بڑا خطرہ بن گئے کہ امریکا نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے لے کر اسلام آباد تک نہ صرف یہ کہ ان کے خلاف ایک سازش تیار کی بلکہ سفارتی ذرائع سے انہیں مطلع بھی کردیا۔ جس کی وجہ سے انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ اس دوران
ایک حیرت انگیزبات سامنے آئی۔ اقتدار سے ہٹنے کے بعد ساڑھے تین سالہ کارکردگی پر بجائے اس کے کہ عوام عمران خان کا جوتوں سے استقبال کرتے ہر جگہ ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ امریکی سازش کا بیانیہ عوام کے ایک طبقے کو ایسا بھایا کہ وہ سب کچھ بھول گئے۔ حیران کن طور پر یہ پڑھے لکھے لیکن سیاسی سمجھ بوجھ سے ناواقف لوگ تھے۔ ان لوگوں کی پزیرائی اور جلسوں میں عوامی بھیڑ بھاڑ نے عمران خان کی انانیت اور محسن کشی کے غبارے میں ایسی ہوا بھری کہ سب کچھ چھوڑ کر وہ جرنیلوں اور فوج کے پیچھے پڑ گئے۔ اپنے سابقہ محسنوں کو نیوٹرل، جانور، میر جعفر، میر صادق، غدار، امریکن ایجنٹ اور نجانے کیا کیا کہہ ڈالا۔ فوج عمران خان کے دباؤ میں آگئی یا صبر کا مظاہرہ کرتی رہی لیکن پنجاب کے ضمنی الیکشن میں عمران خان کی پندرہ سیٹوں پر کامیابی سے یہ خیال پختہ ہونے لگا کہ پی ڈی ایم سے ہاتھ ہو گیا ہے اور فوج عمران خان کو دوبارہ بڑی اکثریت سے لا رہی ہے۔ لیکن پچھلے ایک ڈیڑھ مہینے سے عمران خان کے بارے میں فوج کی تلخی نمایاں نظر آنے لگی ہے۔ آٹھ سال سے رکے ہوئے فارن فنڈنگ کے معاملے میں الیکشن کمیشن کے فیصلے میں اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد ایک یقینی امکان ہے جس کے بعد طرفین کے درمیان تلخی آخری حدوں تک آپہنچی۔ عمران خان نے اس تلخی کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ کوئٹہ کے شہداء کے خلاف انتہائی غلیظ میڈیا مہم نے اس آگ پر پٹرول چھڑک دیا۔۔ اپنے زعم، مکر اور نومبر سے پہلے اقتدار تک رسائی کی خواہش میں عمران خان اس بھونچال کو دیکھ سکے اور نہ اس کے آفٹر شاکس کو اور انہوں نے شبہاز گل سے اے آر وائی پر وہ بیان پڑھوا دیا جس کے بعد ایک طرف انہیں اور ان کی پارٹی کو قید وبند کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور دوسری طرف فارن فنڈنگ کیس، توشہ خانہ ریفرنس میں ان کی نااہلی بھی زیادہ دور نظر
نہیں آتی۔ اب ماحول بدل چکا ہے۔ فوج میں عمران خان کے ساتھ مل کر چلنے اور انہیں خوش رکھنے کا رحجان ختم ہوگیا ہے۔
آٹھ برس، 150سماعتوں، 100 التوا کی کوششوں اور تین الیکشن کمشنروں کا عرصہ گزرنے کے بعد فارن فنڈنگ کیس سے زیادہ امیدیں نہیں رہی تھیں لیکن موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ جس مدلل انداز میں فیصلہ تحریر کیا اور پی ٹی آئی کے خلاف جو فرد جرم تیار کی ہے اس کے بعدکیس کو فیصلہ کن انجام تک پہنچانے کے لیے حکومت اور عدلیہ کے راستے کھل گئے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان جھوٹ بولنے، منی لانڈرنگ اور غبن کے معاملات میں ملوث پائے گئے ہیں جس کے بعد وہ پارلیمنٹ کا رکن بننے اور پی ٹی آئی کی قیادت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس اس بات کی علامت ہے کہ عمران خان کس درجے اور کس شدت کے فریب باز اور مکار ہیں۔
فارن فنڈنگ سے بھی بڑھ کر جو معاملہ عمران خان کو تاحیات نا اہلی کے ریڈار پر لا سکتا ہے وہ توشہ خانہ کیس ہے۔ اس معاملے میں نہ بڑی رقوم شامل ہیں، نہ منی لانڈرنگ اور نہ کک بیکس۔ 2018 میں وزیراعظم بننے کے بعد غیر ملکی دوروں میں عمران خان کو جو تحائف موصول ہوئے انہیں معمولی رقوم کے عوض توشہ خانہ سے حاصل کر کے انہوں نے کروڑوں میں فروخت کر کے رقم ہتھیا لی۔ چلیے ٹھیک ہے شاید کسی درجے میں جواز بنتا ہو لیکن مسئلہ یہ ہے عمران خان نے وہ رقوم الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے سالانہ گوشواروں میں ظاہر نہیں کیں۔ وہ عدالت عظمیٰ جس نے 2017ء میں نواز شریف کو اپنے حلفیہ بیان میں اپنے ہی بیٹے سے حاصل نہ ہونے والی آمدنی ظاہر نہ کرنے پرتا حیات نااہل کیا تھا عمران خان کو کس بنیاد پر نااہل کرنے سے انکار کرسکتی ہے جس نے خود تحائف بیچ کر خود رقم وصول کی لیکن الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کی۔ نواز شریف کے فیصلے کو بنیاد بناکر اگر عمران خان کے لیے بھی انصاف کا وہی پیمانہ اختیار کیا گیا تو عمران خان سو مرتبہ تا حیات نا اہل ہو سکتے ہیں۔