!امن انصاف، پہچان پاکستان

363

انتھک محنت، قربانیوں، جذبوں اور حوصلوں کی سر بلندی کا ثمر ہے کہ آج ہم آزاد فضاؤں میں سانسیں لے ر ہے ہیں، جشن منا رہے ہیں، خوش ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں بسنے والے عوام کی نہ ختم ہونے والی مشکلات، پریشانیاں اور تکلیفیں اُن کی خوشیوں پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہیں، غریب اور متوسط طبقے کو دیکھیں تو مسائل کی چکی میں پستا ہی چلا جارہا ہے، پانی، بجلی، گیس، روٹی، روزی، امن و انصاف سب کا حصول سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہ پنپ نہیں سکتا، امن نہ ہو تو زندگی ڈر اور خوف کے سائے تلے بسر ہوتی ہے، عوام کو حقوق کی عدم فراہمی معاشرتی برائیوں میں اضافے کا سبب بھی بن رہی ہوتی ہے۔ جشن ِ آزادی کے موقع پر ایک خیال جو بار بار ذہن میں آر ہا تھا وہ یہ کہ 14 اگست کی خوشیاں منانے کے ساتھ ساتھ ایک اور کام بھی کیا جانا چاہیے اور وہ یہ کہ ہم یہ دیکھیں کہ ہمارے ملک کے مسائل کے حل میں ہمارا اپنا کردار کیا ہو سکتا ہے اور ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں کیا ایسے کام کرسکتے ہیں جو ملکی ترقی اور خوشحالی میں مددگار ثابت ہوں۔ بات جب سماجی مصائب اور مشکلات کی ہو تو بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسے مسائل بھی ہیں کہ جن پر یا تو بات ہی نہیں کی جاتی یا پھر اگر ان مسائل پر کچھ کام ہوتے بھی ہیں تو وہ اپنی محدودیت کی وجہ سے پوری طرح اپنی جگہ حاصل نہیں کر پاتے۔ مثال کے طور پر کیا کبھی (بحیثیت ِ مجموعی) ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کسی جیل میں موجود قیدی آزادی کی خوشیوں کو کیسے مناتا ہو گا؟ ایک ایسا قیدی جو شاید بے گناہ ہو یا پھر جلد رہا ہو سکتا ہو لیکن مسلسل پابند ِ سلاسل ہو، یا پھر جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے موجود ایسا شخص جسے موت کی سزا سنائی گئی ہو اور مرنے کا انتظار اس کی زندگی کے ہر دن کو موت سے بدتر بنا رہا ہو۔ پچھلے دنوں فاطمہ عمر فاروقی کا ایک آرٹیکل بعنوان Waiting to Die: Life on Death Row پڑھنے کا مو قع ملا، فاطمہ کمیٹی فار دی ویلفیئر آف پرزنرز، لیگل ایڈ آفس میں بطور ریسرچ ایسوسی ایٹس کام کررہی ہیں، مضمون پڑھ کر اچھا لگا کہ ہمارے یہاں ایسے موضوعات پر بات ہورہی ہے او ر ایسے موضوعات سے متعلق مسائل کو بھی سامنے لایا جا رہا ہے۔ فاطمہ کا آرٹیکل ایک انفرادی کوشش ہے، جیل میں موجود قیدیوں کے مسائل پر ایک بڑے پیمانے پر موثر، دیرپا اور ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح سے پاکستان میں بسنے والے اقلیتی عوام کے مسائل اور پریشانیوں کو بھرپور طور پر دیکھے جانے کی ضرورت ہے، 11 اگست اقلیتوں کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اس دن اقلیتوں کے حقوق پر مبنی ایک سیمینار میں جانے کا اتفاق ہوا، سیمینار کراچی کے ایک چرچ میں لیگل ایڈ سوسائٹی کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا، پروگرام میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات موجود تھیں، اس پروگرام میں کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہاں موجود شرکاء نے ایک مثبت اور موثر طریق پر اپنی رائے اور نظریات کا بھرپور اظہار کیا، اقلیتوں کے مفاد میں اس طرح کے پروگرامات کا انعقاد یقینا قابلِ ستائش ہے، قومی سطح پر بالخصوص پسماندہ اقلیتی برادری کی خوشحالی کے لیے کیے جانے والے کام وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
خواتین کو وراثتی جائدادا میں حق ملنا بھی ایک عام مسئلہ گردانا جاتا ہے اتنا عام کہ اس کے حل کے لیے کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آتی، لاہور میں مقیم عمر رسیدہ طاہرہ سلطانہ پر بنائی گئی ڈاکیو منٹری کو بہت سے لوگوں نے دیکھا اور سمجھا ہوگا، طاہرہ صاحبہ کی ڈاکیومنٹری اگر چہ کہ انہیں جائداد میں حصہ نہ ملنے پر بحث کرتی ہے مگر دوسری جانب خواتین کو اپنے حق کے لیے آواز اُٹھانے پر بھی راغب کرتی اور اُن میں خوداعتمادی کے احساس کو جلا بخشتی ہے، بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں خواتین سے متعلق تمام تر سماجی مسائل پر اُن کو بھرپور سپورٹ اور ریلیف ملنا چاہیے۔
پاکستان کے گاؤں، دیہاتوں میں بسنے والے سادہ لوح عوام آزادی کی خوشیاں پورے دل سے مناتے ہیں، زیادہ تر افراد کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک یہ لوگ آپس میں مل جُل کر رہتے ہیں لیکن بعض اوقات آپس میں معمولی نوعیت کے لڑائی جھگڑے خطرناک صورت اختیار کرلیتے ہیں جس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں، اور ایسا صرف عدم برداشت، کم علمی اور آگاہی کے فقدان کی وجہ سے ہو رہا ہوتا ہے، اس صورتحال میں قانونی نوعیت کے مسائل پر مشاورت، معاونت اور آگاہی کے لیے تو باآسانی سندھ لیگل ایڈوائزری کال سینٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے لیکن لڑائی جھگڑوں کی وجہ بنتی دیگر وجوہات کے خاتمے کے لیے بھی انہیں پلیٹ فارم میسر آجائیں تو غربت زدہ علاقوں میں بسنے والے عوام غیر ضروری پریشانیوں میں الجھنے سے بچیں رہیں۔
آپس کے لڑائی جھگڑے ہوں، حقوق اقلیتوں کے ہوں یا پھر وراثتی جائداد میں خواتین کے، چائلڈ پروٹیکشن، جیلوں میں موجود قیدی، ہیومن رائٹس، جنسی ہراسگی اور جینڈر بیسڈ وائلنس جیسے موضوعات نہ صرف ڈسکس ہو رہے ہیں بلکہ ان سے وابستہ مسائل کو حل کرنے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں، پاکستان کے عوام، حکومتی ادارے اور مختلف تنظیمیں ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا، اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ بلاشبہ پُر امن اور انصاف پر مبنی معاشروں میں خوشیوں کے رنگ بھی گہرے ہوتے ہیں۔