اور پاکستان بن گیا۔ 75 سال پرانی یادیں

672

۔14 اگست 1947ء ابھی آیا نہیں تھا لیکن برصغیر کے ہر مسلمان گھر میں پاکستان کا چرچا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہر گھر میں پاکستان آنے والا ہے اور اس معزز مہمان کی آمد کی خوشی میں لوگ بے حال ہورہے ہیں۔ ہم الٰہ آباد میں رہتے تھے، اور ہمارا خاندان نجانے کب سے اس شہر میں آباد تھا۔ تحریک پاکستان کا چرچا ہوا تو اس وقت راقم الحروف کی عمر چھے سات سال کے قریب تھی۔ ابا پرنٹنگ پریس الٰہ آباد میں سرکاری ملازم تھے، ان کا کام بہت باریک بینی اور عرق ریزی کا تھا۔ انگریزی کے چھوٹے چھوٹے حروف کو چمٹی سے پکڑ کر سورہ کی مدد سے لفظ بنانا اور تمام حالات کے ساتھ جملہ مکمل کرنا پھر مسودہ مکمل کرکے اس کا پرنٹ نکالنا اور پروف ریڈنگ کرنا۔ لگتا ہے واحد صاحب اس کام سے ادھ گئے تھے اس لیے انہوں نے وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ سے لی تھی۔ ہمارے بڑے بھائی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریلوے میں ملازم ہوگئے تھے۔ اس طرح والد صاحب کی پنشن اور بھائی جان کی تنخواہ سے گھر کا کرچہ چل رہا تھا۔ سستا زمانہ تھا کوئی دشواری نہ تھی۔ ابا نے ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی اپنی دو بیٹیوں کی شادی کردی تھی۔ ایک بیٹی الٰہ آباد میں تھی، دوسری لکھنؤ میں بیاہی گئی تھی، باقی خاندان میں ایک بیٹی اور چار بیٹے، ماں باپ کا اثاثہ تھے اور وہ انہیں سمیٹے ہوئے ایک مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ تحریک پاکستان کا غلغلہ بلند ہوا تو اس پُرسکون اور مطمئن زندگی میں انتشار برپا ہوگیا۔ گھر میں پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجنے لگے۔ ہمارا محلہ تمام تر مسلمانوں کا محلہ تھا، اس میں ایک بھی گھر ہندو کا نہ تھا، اس لیے محلے میں کوئی کشیدگی نہ تھی سب پاکستان کے حامی تھے۔ ہم نے کوئی بڑا جلوس تو نہیں دیکھا البتہ شام کو محلے کے بچے جلوس نکالتے اور اس میں پاکستان کے حق میں پرجوش نعرے لگائے جاتے۔ ان نعروں میں ایک نعرہ یہ بھی تھا ”سینے پر گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے“ یہ نعرہ سنتے سنتے ہمارے معصوم ذہن میں بھی سینے پر گولی کھانے کا شوق پیدا ہوگیا۔ ایک دن اماں سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے پاندان کھولا اور اس میں سے ایک میٹھی نکال کر دیتے ہوئے بولیں ”لوکھالو“ ہم نے حیرت سے کہا ”اماں یہ کیا؟“ وہ ہنستے ہوئے بولیں، ارے پگلے جب پاکستان بنے گا تو یہی میٹھی گولی کھانے کو ملے گی“ ہم نے گولی کو لے کر منہ میں رکھ لی لیکن مطمئن نہ ہوئے۔ ہم محلے میں جو جلوس نکالتے تھے اس کا لیڈر چھے جماعتیں پاس بڑا ہوشیار تھا، ہم نے سینے پر گولی کھانے کے شوق کا اظہار اس سے کیا تو اس نے بتایا کہ سینے پر گولی کھانے سے آدمی مرجاتا ہے لیکن مرتے ہی وہ سیدھا جنت میں پہنچ جاتا ہے جہاں اللہ میاں اس کی بہت خاطر مدارت کرتے ہیں۔ یہ سن کر ہمارے اندر سینے پر گولی کھانے کا شوق اور بھڑک اُٹھا۔
نیز ہمارا یہ شوق تو پورا نہ ہوا البتہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان بن گیا، ہمارا خیال تھا کہ الٰہ آباد تو ضرور پاکستان میں شامل ہوگا مگر بالفرض ایسا نہ ہوا تو کم از کم ہمارے محلے کو پاکستان بننے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن ہماری یہ توقع بھی پوری نہیں ہوئی۔ ابا نے مکان کی چھت پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے سے بھی روک دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے فرقہ وارانہ فساد کا خدشہ ہے۔ انہوں نے محلے والوں کی میٹنگ بلاکر انہیں بھی پاکستانی پرچم لہرانے سے روک دیا تھا۔ الٰہ آباد میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے محلے الگ الگ تھے تاہم ان میں سماجی تعلقات قائم تھے۔ مسلمانوں کے محلوں میں ایک دو ہندوؤں کے گھر بھی تھے اس طرح ہندوؤں کی بستی میں اکادکا مسلمان بھی آباد تھے۔ ہندوستان تقسیم ہوتے ہی برصغیر کے طول و عرض میں بلوے شروع ہوگئے۔ جہاں بس چلا مسلمانوں نے بھی ردعمل میں درندگی کا مظاہرہ کیا لیکن درندگی اور قتل و غارت گری میں ہندوؤں اور سکھوں کا پلّہ بھاری رہا اس کے لیے انہوں نے پہلے سے منصوبہ بندی کررکھی تھی۔ دہلی جیسا شہر جو اسلامی تہذیب و ثقافت اور اہل علم و ادب کا مرکز تھا بلوائیوں نے اجاڑ کر دکھ دیا اور مسلمان ہر شہر سے پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس داروگیر میں الٰہ آباد بڑی حد تک محفوظ رہا۔ ابا بتاتے تھے کہ بلوے یہاں بھی ہوئے لیکن نہایت چھوٹے پیمانے پر، شہری زندگی بڑی حد تک پرسکون رہی، مسلمانوں اور ہندوؤں کا ملنا جلنا بھی برقرار رہا۔ ابا کے بہت سے ہندو دوست تھے جو آ آ کر انہیں تسلی دیتے رہے، ایسے میں ہم میں سے کسی کے دل میں پاکستان ہجرت کرنے کا خیال بھی نہ آیا اور سب مطمئن ہو کر بیٹھ گئے۔ ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ بڑے بھائی جان نے جو ریلوے میں ملازم تھے پاکستان جانے کا اعلان کرکے گھر میں ایک دھماکا کردیا۔ گھرکا ہر فرد اس دھماکے سے لرز اٹھا۔ اماں چولہے پر روٹی پکا رہی تھیں ان کے ہاتھ اس طرح لرزے کہ روٹی توے پر پڑنے کے بجائے اچھل کر دیوار سے چپک گئی۔ ابا شاید کوئی کتاب پڑھ رہے تھے وہ ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی، ہم بھائی جان کو حیرت اور خوشی سے دیکھنے لگے۔ ابا نے برہمی کے ساتھ بھائی جان کو مخاطب کیا ”مجید تم نے پہلے تو کبھی پاکستان جانے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا اب ایسا، کیا ہوگیا ہے کہ تم پاکستان جانے پر آمادہ ہوگئے ہو؟“ بھائی جان نے نہایت تحمل سے جواب دیا ”ریلوے نے اپنے مسلمان ملازمین سے آپشن مانگا تھا کہ وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان جانا پسند کریں گے۔
میں نے پاکستان کے حق میں رائے دے دی تھی۔ اب باقاعدہ آرڈر آگیا ہے اور میرا لاہور ٹرانسفر ہوگیا ہے۔ آئندہ اتوار کو میری پاکستان روانگی ہے۔ میں نے پہلے آپ لوگوں کو اس لیے نہیں بتایا کہ آپ کی مخالفت سے میرا ارادہ ڈانواں ڈول ہوجاتا جب کہ میں ہر حال میں پاکستان جانا چاہتا تھا، پاکستان میرے خوابوں کا وطن ہے اس کے لیے مسلمانوں نے بڑی قربانی دی ہے۔ اب پاکستان بن گیا ہے تو ہمیں وہاں جانا چاہیے، یہاں ہندو ہمیں نہیں رہنے دیں گے آپ کو کیا معلوم ریلوے میں میرے ہندو ساتھی مجھے کن نظروں سے دیکھتے ہیں“۔
بھائی جان کی اس تقریر سے گھر میں سناٹا چھا گیا۔ اماں بڑی بے چینی سے ہاتھ ملنے لگیں جیسے کوئی بہت قیمتی چیز ان کے ہاتھ سے نکلی جارہی تھی۔ بات بھی سچ تھی، بیس بائیس سال کا گورا چٹا خوبصورت بیٹا پردیس جارہا تھا، نجانے کس کے ہتھے چڑھ جائے۔ ان کی پریشانی بجا تھی لیکن انہوں نے اس پریشانی کو اپنے اوپر غالب نہ آنے دیا۔ بیٹے کو پاس بلایا اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، گلے لگا کر بڑی دیر تک پیار کیا، پھر بولیں ”بیٹا تمہاری یہی خوشی ہے تو ضرور جاؤ لیکن یاد رکھو میں تمہارے بغیر زیادہ دن زندہ نہیں رہوں گی“ بھائی جان بھی جذباتی ہوگئے اماں کے پاؤں پکڑ کر بولے ”اماں گھبراؤ نہیں میں بہت جلد آپ سب لوگوں کو اپنے پاس بلالوں گا“۔
ابا نے بھی بھائی جان کو گلے لگایا انہیں کچھ نصیحتیں کیں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا کی، ہم تین بھائی اور بہن بھی بھائی جان سے لپٹ گئے اور ان سے تقاضا کرنے لگے کہ ہمیں ساتھ لے کر جائیں۔ انہوں نے باری باری سب کو گلے لگایا اور تسلی دی کہ وہ بہت جلد سب کو اپنے پاس بلالیں گے۔ بھائی جان کے پاکستان جانے کی خبر عام ہوئی تو عزیز رشتے دار اور محلے کے لوگ ان سے ملنے اور مبارکباد دینے کے لیے آنے لگے۔ بڑی آپا قریب ہی رہتی تھیں۔ بھائی جان جب تک رخصت نہیں ہوئے ہمارے پاس ہی رہیں اور اماں کو دلاسا دیتی رہیں۔
بھائی جان نے لاہور پہنچتے ہی بذریعہ پوسٹ کارڈ اپنے بخیریت پہنچنے کی اطلاع دی۔ اس زمانے میں ٹیلی فون بھی نہیں تھا کہ ان کی لاہور آمد کی اطلاع فوراً مل جاتی۔ پوسٹ کارڈ آنے میں کئی دن لگ گئے اس دوران ماہی بے آب کی طرح تڑپتی رہیں کھانا پینا چھوڑ دیا، خط آیا تو تسلی ہوئی، پھر خطوں کا تانتا بندھ گیا ہماری طرف سے بس یہی تقاضاہوتا تھا کہ جلدی پاکستان بلایا جائے۔ بھائی جان جواب میں بتاتے کہ وہ پوری فیملی کے لیے پرمٹ (اجازت نامہ) بنوانے کی کوشش کرہے ہیں جونہی بن گیا وہ رجسٹری کردیں گے۔ اس کام میں کئی ماہ لگ گئے آخر رجسٹری ملی تو ہماری خوشیوں کا ٹھکانا نہ تھا۔ پاکستان جانے کی تیاری شروع ہوگئی الوداعی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ابا کے ہندو دوست ان سے کہنے لگے ”رحمن صاحب جو ہونا تھا ہوگیا اب تو حالات معمول کے مطابق ہیں پھر آپ لوگ کیوں جارہے ہیں؟“۔
ابا نے جواب دیا ”میرا بڑا بیٹا پاکستان جا چکا ہے اب ہمارا جانا بھی مقدر ہوگیا۔ ہم ہمیشہ سے پاکستان کے حامی تھے آپ لوگ کبھی اس بات کو بھلا نہیں سکیں اور وقت کے ساتھ ساتھ رویے تلخ ہوتے جائیں گے اس لیے بہتر ہے اچھے ماحول میں رخصت ہوجائیں“۔
آخر الٰہ آباد سے جدائی کی گھڑی آپہنچی اور ہم لوگ 1949ء کے اوائل میں اپنے نئے وطن پاکستان آگئے۔ آج اس وطن کی جو بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا، پچھترویں سالگرہ منارہے ہیں۔ اللہ اس کی حفاظت فرمائے جسے برباد کرنے میں اہل وطن نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔