اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے

574

ہم میں سے اکثریت نے قیام پاکستان کے واقعات اپنی نانی، دادی سے سن رکھے ہیں جو ان کے یا ان کے والدین کے ساتھ پیش آئے۔ یہ واقعات سناتے ہوئے ان کے چہروں پر خاموش کرب، دکھ تکلیف، جدائیاں، رنجیدگی اور پھر کچھ پانے کی خوشی سے دمکتی رنگت کے ملے جلے تاثرات نظر آتے تھے۔ اپنا گھر بار، مال و متاع، جائداد و زمین چھوڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کر جانا اتنا آسان کام نہیں ہے اور میرے خیال میں یہ ہجرت تو ہجرت مدینہ سے بھی زیادہ مشکل تھی۔ ہجرت مدینہ کے دوران کسی بھی مسلمان کی شہادت کی خبر نہیں ملتی لیکن پاکستان پانے کے لیے جو مسلمانوں نے ہجرت کی یہ ہجرت تو عزتوں کی قربانی، خون کی ندیوں اور لاشوں کے ڈھیر سے گزر کر کی۔ کتابوں پر لکھے کو تو شاید ہم نظر انداز کر دیں اور کہہ دیں کہ مصنف نے صرف قصیدہ گوئی سے کام لیا ہے لیکن اپنے والدین کے ساتھ بیتے اور ان کے آنکھوں دیکھے پر کیسے شک کریں جنہوں نے اگر روپے، زیورات پکڑے بھی تو راستے میں لوٹ لیے گئے۔ جو رات کی تاریکیوں میں بھی بلوائیوں کے حملوں سے نہ بچ سکے، جنہیں جوان بچیوں کا ساتھ سب سے زیادہ خوف زدہ کر رہا تھا، جن کی حاملہ عورتوں کے پیٹ چیر کر بچے نکالے گئے پھر وحشی دشمن ان بچوں کو نیزوں پر لٹکا کر جشن مناتے اور جے شری رام، ست سری اکال کے نعرے لگاتے۔ جو گھروں سے تو پاکستان کا حصہ بننے کے لیے نکلے لیکن راستے ہی میں اپنا سب کچھ لٹا کر آخر شہادت کا درجہ بھی حاصل کیا۔ بستیاں کی بستیاں اور قافلوں کے قافلے لاشوں میں تبدیل ہوگئے۔ دریاؤں کے پانی بھی خون سے سرخ ہو گئے۔ کئی ٹرینیں پاکستان میں ایسی بھی داخل ہوئیں جن کا صرف ڈرائیور زندہ تھا باقی ٹرین لاشوں سے بھری پڑی تھی۔ ڈرائیوروں کو اس لیے زندہ رکھا گیا تاکہ یہ بھری ٹرین پاکستان میں لے جائے۔ اس وقت مسلمانوں پر دارالسلام پاکستان کی طرف ہجرت کے راستے پر برصغیر کے کافروں نے جو ظلم و ستم اور قہر برپا کیا اگر ہجرت مدینہ کے وقت والے کفار دیکھ لیتے تو ان کافروں سے اپنی مذہبی نسبت پر ہی شرم محسوس کرتے۔ اگر ہم ہجرت مدینہ اور ہجرت پاکستان کے راستے میں آنے والی مشکلات کا تقابل کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں پاکستان حاصل کرنا زیادہ مہنگا، پڑا کیونکہ اس کی بنیاد میں ہمارے آبا و اجداد کی ان مٹ تکلیف دہ یادیں دفن ہیں۔
پاکستان ہماری سب سے زیادہ قیمتی متاع ہے، یہ ہمارا گھر ہے، ہماری پہچان ہے، ہماری آزادی کا نشان ہے، ہم کیسے اس وطن کو فاترالعقل لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ سکتے ہیں اب ہماری ذمے داری بلکہ فریضہ ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اس ملک کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں کریں۔ ملکی زمام کار پکڑنے والوں کے انتخاب سے لے کر ہلدی، مرچیں بیچنے تک اس ملک میں سب ہمارا کام ہے۔ سیاست دان اور بیوروکریٹ جنہوں نے مل کر سب سے زیادہ ملک کا نقصان کیا ہے، ان لوگوں کی اگر تعداد دیکھی جائے تو ملکی آبادی کا نصف فی صد بھی نہیں بنتا پھر ہم ان نصف فی صد سے بھی کم لوگوں کو اپنی قسمت سے کھلواڑ کرنے کیوں دے رہے ہیں؟ انہیں ملکی اداروں پر کیوں مسلط کر رکھا ہے؟ یہ کروڑوں عوام پر کیوں حکمرانی کر رہے ہیں؟ کیوں عوام کی محنت و مشقت کی کمائی پر عیاشی کر رہے ہیں؟ یہ لوگ ہمارے اپنے ہی کب ہیں۔ ان کے دل ہمارے لیے درد سے خالی ہیں۔ یہ پاکستان کو اپنا سمجھتے ہی کب ہیں۔ ان کے بینک بیلنس ملک سے باہر ہیں۔ ان کے علاج ملک سے باہر ہوتے ہیں، ان کے بچے ملک سے باہر پڑھتے اور رہتے ہیں۔ یہ علاج اور پڑھائی کے لیے ملک سے باہر چلے تو جاتے ہیں لیکن پاکستان میں اس معیار کے ادارے بنانے کی کبھی زحمت نہیں کریں گے۔ یہ سکون حاصل کرنے اور چھٹیاں گزارنے کے لیے ملک سے باہر چلے جائیں گے لیکن پاکستان کو پر امن بنانے، تفریحی مقامات کو سجانے اور مکمل سیاحتی سہولتیں دینے کی کبھی کوشش نہیں کریں گے کیونکہ یہ پاکستان کو اپنا سمجھتے ہی نہیں۔ میرا یہ سب لکھنے کا مطلب ہرگز نہیں کہ میرا ملک خوبصورت نہیں یا یہاں کے ڈاکٹر اور استاد قابل نہیں بلکہ یہ لوگ پاکستان کو اپنے قابل نہیں سمجھتے اور میں ان کو پاکستان کے قابل نہیں سمجھتی۔ ان کے گھر اور سرمایہ ملک سے باہر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تو یہ لوگ ملک کو کھانے چاٹنے آتے ہیں اور اپنا مقصد پورا کرنے کے بعد واپس اپنے ٹھکانوں پر چلے جاتے ہیں پھر ان ٹھنڈے ملکوں میں بیٹھ کر بڑھاپا گزارتے ہیں۔
ہمارے بزرگ تو جان و مال کی قربانیاں دے کر حاصل شدہ ملک ہمارے حوالے کرکے چلے گئے کیا ہم ان عظیم قربانیوں کو رائیگاں جانے دیں گے؟ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اس آزادی کی قدرو قیمت جانیں۔ اپنے وطن کی محافظت، سالمیت اور ترقی کے لیے، اپنے ہر فعل میں نہ صرف اپنا فائدہ بلکہ اپنے ملک کے نفع و نقصان کو بھی مدنظر رکھیں۔ اپنی ذات کے خول سے نکل کر اپنے ملک کے لیے بھی سوچیں اور جہاں بھی قربانی دینی پڑے قربانی دے کر اس نظریاتی آزادی کو بچا لیں جس کے لیے پاکستان حاصل کیا تھا کیونکہ آزادی ہمیشہ قربانی مانگتی ہے۔ شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے۔
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دیکھو کہیں اجڑے نہ ہمارا یہ باغیچہ
اس کو لہو سے اپنے شہیدوں نے ہے سینچا
اس کو بچانا جان مصیبت میں ڈال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے