ـ75واں یوم آزادی، ہم قوم کیسے بنیں؟

724

14اگست کا قومی تہوار مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والوں کے لیے نعمت خداوندی سے کم نہیں۔ قوم 75واں یوم آزادی منانے کے لیے پرجوش ہے۔ بچوں نے فرمائشیں کرکے سبز ہلالی پرچم کی نسبت سے نئے کپڑے بنوائے ہیں۔ ملی جذبے سے سرشار نوجوانوں نے اپنے اپنے گھروں، محلوں اور بازاروں میں ہری ہری جھنڈیاں لگانے کا ذمہ لے لیا ہے۔ چوراہوں اور اہم سرکاری و نجی عمارتوں میں عاشورہ کے بعد سجاوٹ کا اہتمام ہے جس کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ کون کتنا بڑا جھنڈا اور پرچم تھامے آزادی ریلی میں نکلے گا، مقابلہ شروع ہوچکا ہے۔ تعلیمی ادارے، سماجی تنظیمیں اور سرکاری سطح پر منایا جانے والا یہ تاریخی دن ہر ایک کے لیے فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ ایسا جوش و ولولہ الحمدللہ دیکھ کر آنکھوں سے خوشی کے آنسو ٹپک پڑتے ہیں۔ چہرے پر مسکراہٹ اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کی رسم اس تہوار اور خوشی کو دوبالا کررہی ہوتی ہے۔ بس اگر کمی ہے تو تھنک ٹینک کی، سوچ و بچار کی، شعور کی اور اس سے بڑھ کر رہبر کی، راستہ دکھانے والے کی، قوم کا ہر فرد اس انتظار میں ہے کہ وہ کون سا دن ہوگا جب پاکستان غیر ملکی طاقتوں کے شکنجے سے نکل پائے گا۔ ہم کب آزادی کے ساتھ اپنے فیصلے خود کرسکیں گے۔ کب تک ہمیں ڈکٹیشن کا سامنا رہے گا؟ قوم کا ہر ہر فرد و بچہ ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہے۔ ایک امنگ ہے، عزم ہے ، ارادہ مصمم ہے۔
وقت تیزی سے گزر گیا، 75سال گزر گئے پتا ہی نہیں چلا۔ اب تو آزادی کے وہ دن دیکھنے والے بھی چیدہ چیدہ ہی رہ گئے ہیں جو نئی نسل کو بتا سکیں کہ کس طرح انہوں نے اس آزادی کے لیے جدوجہد کی تھی اور وہ کون سی ایسی قربانی تھی جو انہوں نہ دی ہو۔ غرض جشن منائیں مگر مستقبل میں رب العز ت سے ملک کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں دینے کا وعدہ و عہد کریں کہ تبدیلی کے لیے جو نظام جمہوریت میں انتخابات ذریعہ بنتے ہیں اس میں حق رائے دہی استعمال کرکے ایسی قیادت کو سامنے لائیں گے جو دیندار ہو اور دنیا کے نظام معیشت و معاشرت چلانے کی اہلیت بھی رکھتی ہو۔ ایک اللہ سے ڈرنے والے ہوں جو طاغوتی طاقتوں کو خاطر میں نہ لائیں۔ قوم و ملک کا سودا کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر ایسی سزائیں دی جائیں کہ آئندہ کسی کی جرأت نہ ہو کہ وہ ہمارے پیارے وطن کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے۔ پہلے اپنے آستین کے سانپوں سے نمٹیں اور پھر خود ساختہ غنڈا گردی اور دھونس پر مبنی ہم پر اپنا حکم مسلط کرنے والوں یعنی غیر ملکی طاقتوں کے خلاف ہر طریقے سے مقابلہ کریں۔ اس کے لیے قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا اور اعتماد دینا بھی۔ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے، کے مصداق کون یہ کام کرے گا؟ موجودہ حالات میں مرکزی حیثیت کی حامل جماعتوں کو عوام اور خلائی مخلوق کئی مرتبہ آزما چکی۔ اب خدارا! اپنی سوچ کو بدلیں۔ ذمے داری کا احساس پیدا کریں۔
سوال یہ ہے کہ قوم بنائے گا کون؟ اس کے لیے پیمانہ بنانا ضروری ہے۔ جہاں تک مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تعلق ہے تو اس کے لیے بنیادی شرط دین اسلام سے جڑنا ہی بنتا ہے۔ اس کے بعد اس پاک سرزمین دھرتی پر اس دین کو نافذ کرنا ہے جس کے لیے بے پناہ قربانیاں دی گئیں۔ آیئے 75ویں یوم آزادی کے موقع پر عہد کریں کہ اپنے پیارے وطن کے لیے ہم ہر قسم کے اختلافات بھلادیں گے۔ ایک قوم ، ایک ملت اور امت واحدہ کی ایسی مثال بنیں گے کہ واقعی دنیا کہہ سکے کہ مملکت خداداد اسلامی جمہویہ پاکستان ’’اسلام کا قلعہ ہے‘‘۔