دنیا کے بدنام حکمران ، صدام (آخری حصہ)

536

اب آتے ہیں اصل معاملے کی طرف کہ صدام دنیا کا خراب ترین بدنام ترین حکمران تھا۔ اس نے حیاتیاتی اسلحہ استعمال کیا۔ اس کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار، (ڈبلیو ایم ڈیز) تھے۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کردیتا تھا نہایت ظالم تھا بس نہیں چلتا تھا کہ صدام اور ہٹلر کے موازنے میں ہٹلر کو زیادہ خراب کہا جائے یا صدام کوامریکی سی آئی اے نے رپوٹ دی کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار ہیں ۔ عالمی اداروں نے اس کی تصدیق کر دی اور سی این این نے اس کو اس قدر گھسیٹا کہ یہ موضوع بچے بچے کے ذہن میں راسخ ہو گیا ۔ سب یہی سمجھتے تھے کہ عراق کے پاس وسیع تباہی کے ہتھیار ہیں ۔ اس کے بعد عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ یہ جنگ بھی عجیب تھی ۔ امریکی ہزاروں فیٹ بلکہ میٹرز اوپر سے عراق پر بمباری کرتے تھے ۔ انہیں شاید خود بھی عراق کی حقیقی طاقت کا اندازہ نہیں تھا ۔ا س لیے وہ نیچے آتے ہوئے ڈرتے تھے ۔ جس دوران صدام کا ناطقہ بند کیا گیا اسی دوران کچھ قوتیں امریکی اتحاد کے خلاف بھی منظم ہو گئیں ۔ ان کا خیال تھا کہ امریکی دور سے بمباری کرتے رہیں ہم سامنے نہیں آئیں گے ۔ لیکن جنگ تو اس وقت شروع ہوئی جب امریکی عراق میں داخل ہوئے ۔ پھر ان کو آٹے دال کا بھائو مال ہوا ابتداء میں توامریکی اس قسم کے بہانے کرتے تھے کہ ایک فوجی گاڑی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی جس سے آٹھ فوجی زخمی ہو گئے ۔ چار اسپتال پہنچنے سے قبل مرگئے دو مردہ حالت میں اسپتال میںملے اور دو خود بخود مر گئے ۔ پھر یہ کہا گیا کہ کئی امریکی فوجی گھر سے دوری( ہوم سکنس) کی وجہ سے بیمار ہوگئے اورجان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن جب یہ ہلاکتیں سینکڑوں اور پھر ہزاروں میں پہنچیں تو امریکیوں کو عراق سے بوریا سمیٹنا پڑا کیونکہ امریکا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا تھا ۔ بہت سوں کی لاشیں ہی غائب کر دی گئی تھیں ۔ یہ چونکہ امریکیوں کے ساتھ ہوا اور عموماً لوگ اس ذکر کو چھوڑ کر عراق اور صدام کے جرائم کا ذکرکرتے ہیں یہ نہیں پوچھتے کہ اتحادی افواج عراق میں کیا کرنے گئی تھی اور کیا کرڈالا ۔
ان ڈبلیو ایم ڈیز کے بارے میں بعد میں امریکی حکومت نے کہہ دیا کہ یہ رپورٹ سی آئی اے نے غلط دی تھی ۔ یعنی امریکا نے سی آئی اے کی رپورٹ کی بنیاد پر عراق پر چڑھائی کی ۔ ہزاروں عراقی قتل کر ڈالے ۔ عراق کا انفرا اسٹرکچر تباہ کر دیا اورتیل کے ذخائر پر قبضہ کر لیا ۔ اپنے ہزاروں فوجی مروا دیے اور اتنے بڑے جھوٹ پر کوئی شرمندگی نہیں بلکہ اب اس جھوٹ کے انکشاف کو بھی جھوٹ کہا جا رہا ہے ۔ امریکیوں نے جن ہتھیاروں کا ذکر کیا تھا وہ کوئی ٹافی نہیں تھی کہ کوئی جیب میں رکھ کر چلاجائے اور کسی کو پتا ہی نہ چلے ۔ یہ سارے جھوٹ گھڑے اسی لیے گئے تھے کہ صدام سے انتقام لینا تھا ۔ اور انتقام صرف ایک مضبوط مسلمان ملک بنانے والوں سے لیا جاتا ہے ۔ صدام کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ وہ سرد جنگ کے عروج کے دور میں اقتدار میں آئے اور پارٹی کے نام پر بھی عرب سوشلسٹ پارٹی کا لیبل تھا ۔ ایسے ماحول میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں سے دنیا بھر میں امریکیوں کو تکلیف تھی اسی وجہ سے قذافی کو نشانہ بنایا گیا اور اسی وجہ سے صدام کو بھی بش انتظامیہ کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ عراق پر حملہ تو ہر حال میں کریں گے لیکن اس کے لیے بہانہ ڈبلیو ایم ڈی کا تراشا گیا جس سے دنیا بھر میں خوف پھیلتا تھا ۔ ایک سوال اپنی جگہ ہے کہ امریکا دنیا بھر میں اپنی فوج اور جاسوس مشن اور آج کل ڈرون بھیج کر امریکیوںکے تحفظ کا فریضہ انجام دے رہا ہے ۔ لیکن امریکیوں کے امریکا میں تحفظ کا اتنا اچھا انتظام کیوں نہیں کر دیتے ۔ وہ ویتنام میں نامعلوم دشمن کی تلاش میں گئے ۔ افغانستان میں غلط الزام لگا کر داخل ہوئے اور عراق میں بھی یہی کیا ۔ تینوں جگہ اچھی طرح پٹ کر نکلے لیکن اب بھی نئے اہداف تلا ش کر رہے ہیں۔
صدام حسین کی خارجہ پالیسی بھی امریکا کے لیے تکلیف دہ تھی کیونکہ عراق کے سوویت یونین سے قریبی تعلقات تھے جبکہ فرانس اور جرمنی سے بھی اچھے مراسم تھے ۔ ان ممالک سے عراق نے ہتھیاروں کاجدید نظام حاصل کیا اور امریکا سے ایران کے خلاف جنگ میں بھاری امداد وصول کی ۔ لیکن کویت پر حملے کے بعد صورحال الٹ گئی ۔ عراق کے پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات دیرینہ تھے ۔ پہلے سوویت یونین کے خلاف پاکستان اور عراق بغدادپیکٹ( معاہدہ بغداد) کا حصہ تھے ۔ لیکن1958ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے عراق میں سلطنت ہاشمیہ کا خاتمہ کر کے شاہ فیصل دوم شہزادہ عبداللہ اور وزیر اعظم نوری السعید کو قتل کر دیا گیا اور عراقی ریپبلک بنا دی گئی ۔ اس کے بعد عراق بغداد پیکٹ سے الگ ہو گیا اور اس معاہدے کو سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن( سینٹو) کا نام دیا گیا ۔ اس کے بعد عراق اور پاکستان کے درمیان کشدگی بھی رہی ، صدام دور میں پاکستان نے جنگ میں ایران کی حمایت کی تھی اور امریکی اتحادیوں کا ساتھ دیا تھا ۔ تاہم سدام کے خاتمے کے بعد پاکستان کے عراق کے ساتھ تعلقات بہتر ہیں ۔ عراق کے خلاف1989-90 سے 2003ء تک فوجی ایکشن کیوں کیا گا ۔ اس سے امریکا اور دنیا کوکیا حاصل ہوا ۔ اس کا جواب اب تاریخ ہی دے گی ۔ البتہ یہ امریکیوں کا کارنامہ ہے کہ ایک انڈے سے کئی بچے نکالتے ہیں چنانچہ پہلے عراق میں القاعدہ پہنچائی پھر اس میں سے داعش نکالی اور اسے شام پہنچا دیا ۔ اب عرب دنیا داعش سے لڑ رہی ہے ۔ امریکا یوکرین میں مشغول ہے ۔