دنیا کے بدنام حکمران، صدام

637

عراق اور اس کے بدنام حکمران صدام حسین کے بارے میں کچھ جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ عراق دنیا میں تیل سے مالا مال ممالک میں سے ایک ہے اس کے تیل کے ذخائر دنیا میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ اس کی تیل کی پیداوار 43 لاکھ بیرل یومیہ ہے جس میں سے چالیس لاکھ بیرل برآمد کردیا جاتا ہے اس اعتبار سے عراق دنیا میں تیل برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ جدید دنیا عراق کو میڈیا خصوصاً سی این این کے حوالے سے جانتی ہے صدام حسین کو ڈکٹیٹر، ظالم اور دہشت گردی کا سرپرست سمجھتی ہے۔ صدام حسین کون تھا کیا تھا یہ بھی سب ریکارڈ پر ہے بس ہم اسے جمع کرکے یہاں رکھ دیتے ہیں وہ شمالی عراق کے شہر تکریت میں 1937ء میں پیدا ہوئے۔ نہایت غریب کسان گھرانا تھا صدام کے والد کا انتقال ان کی پیدائش سے قبل ہوگیا وہ بغداد میں اپنے رشتے دار کے گھر پلے بڑھے پھر بعث پارٹی میں شامل ہوگئے اور بہت تیزی سے ترقی کی بعث پارٹی کی اندرونی سیکورٹی کے سربراہ بنے مخالفین کو برداشت نہ کرنے اور انہیں جیلوں میں بند کرنے کی شہرت رکھتے تھے بالآخر وہ 16 جولائی 1979ء کو البکر کے استعفے کے بعد صدر بن گئے۔ یہ بات بھی گردش کررہی تھی کہ استعفے کے پیچھے صدام کا دبائو تھا۔ صدر البکر کو اس کے بعد ایک گھر میں نظر بند کردیا گیا وہیں 1982ء میں وہ انتقال کرگئے۔
تیل کے ذخائر اور پیدوار کے ساتھ تیل کی برآمد کے بارے میں معلوم ہونے کے ساتھ صدام حسین پر امریکی الزامات پر بات کرنے سے قبل صدام کے دور میں عراق کی ترقی کے بارے میں بھی بات کی جائے۔ صدام حسین نے صدر البکر سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد دیگر انقلابی لیڈروں کی طرح اقتدار پر کنٹرول مضبوط کیا اس کے بعد تیل کی دولت کو استعمال کرتے ہوئے عراق کو جدید ملک بنانا شروع کردیا۔ اس اعتبار سے عراق کو جدیدیت کی طرف لے جانے والا حکمران صدام حسین ہی تھا اس کے دور میں صنعتی ترقی نے ملک کو جدید بنادیا مغرب اور یورپ جن بنیادوں پر مسلمان ملکوں پر تنقید کرتے ہیں وہ عورتوں کے حقوق، مساوات مردو زن اور صنفی امتیاز وغیرہ ہیں صدام نے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کو حقوق دلوائے اور آزادیاں بھی دیں لیبیا کی طرح عراق میں بھی تعلیم لازمی کردی گئی اس کے نتیجے میں تعلیم یافتہ عراقیوں کی ایک فوج تیار ہوئی جس کی مدد سے تیل کی دولت استعمال کرتے ہوئے معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوئی صدام دور میں خیرات پر بہت زور دیا جاتا تھا حکومت بھی خیراتی منصوبے چلاتی اور نجی ادارے اور مالدار لوگوں کو بھی اس پر ابھارا جاتا۔ اس معاشی ترقی کے لیے جو چیز ضروری ہوتی ہے اسے انفرا اسٹرکچر کہا جاتا ہے صدام دور میں یہ بنیادی ڈھانچہ بہترین تھا صدام دور میں صنعتوں کو بھی بجلی فراہم کی گئی اور تقریباً پورے ملک میں بجلی پہنچائی گئی صدام کے دور میں عراق پرامن ملک تھا اور یہاں کے لوگ بھی خوشحال تھے لیکن امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف جنگ میں حمایت اور پشت پناہی اور جنگ کے بعد سے عراقی مسلسل دو عشرے تک جنگ کی حالت میں رہے، 1979ء میں عراق کے پڑوس میں شاہ ایران کو خمینی کی تحریک کے سامنے پسپا ہو کر ملک سے فرار ہونا پڑا اور ایران میں روح اللہ خمینی کی حکومت قائم ہوگئی خمینی نے پہلا اعلان اپنا انقلاب ایکسپورٹ کرنے کا کیا اس اعلان کے ساتھ ہی دنیا کی سازشی قوتیں متحرک ہوئیں اور اس انقلاب کا پہلا ہدف عراق کو ظاہر کیا گیا جس کے بعد عراق اور ایران میں کشیدگی بڑھ گئی بالآخر وزیر خارجہ طارق عزیز پر قاتلانہ حملے کے بعد صدام نے ایران کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کردی یہ جنگ 1980ء سے اگست 1988ء تک چلی۔ اس طویل جنگ میں عربوں نے عراق کی بھرپور حمایت کی اس کے پاس جدید ٹینک اور طیارے آگئے اور ایران کے انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے کے اعلان سے اصل خوفزدہ امریکا و یورپ نے عراق اور ایران کو لڑوا دیا اس طویل جنگ کا انجام کسی نتیجے کے بغیر ہوا لیکن مغرب ایک غلطی کر بیٹھا کہ عراق کو عرب دنیا کا مضبوط ترین ملک بنادیا۔ اس کی فوجی طاقت اس زمانے میں بہت بڑھ گئی تھی عراقی فوج کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ تھی۔ اس کا حل بھی عالمی منصوبہ سازوں کے پاس تھا صدام حسین کو یہ باور کرایا گیا کہ کویت عراق کا تیل چرا رہا ہے اس بنیاد پر دونوں ملکوں میں تنازع تھا بالآخر 2 اگست 1990ء کو عراق کی افواج کویت میں داخل ہوگئیں اور عراق نے کویت پر قبضہ کرلیا۔ یہ صورت حال ان ہی عرب ممالک کے لیے پریشان کن بن گئی جو ایران کے خلاف عراق کی مدد کررہے تھے انہیں خوف تھا کہ اب عراق کا رخ ہماری طرف ہوگا لیکن منصوبہ تو کہیں اور بنا تھا اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل حرکت میں آئے۔ عراق پر پابندیاں عائد کی گئیں اور امریکی قیادت میں اتحادی افواج نے عراق پر چرھائی کردی۔ یہ جنگ کیوں شروع ہوئی اس کی وجہ یہ تھی کہ صدام حسین اور عراق کی مدد کرنے والے ممالک کویت، امارات اور سعودی عرب نے اسے جو رقم یا اسلحہ دیا وہ قرض کے طور پر دیا تھا۔ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے وقت عراق 37 ارب ڈالر کا مقروض تھا صدام نے یہ قرضہ ایران سے عربوں کو بچانے کے لیے اپنی خدمات کے عوض امداد میں تبدیل کرنے کی کئی درخواستیں کیں لیکن کوئی جواب نہ ملا جس پر صدام نے کویت پر قبضہ کرلیا تا کہ اس کے تیل کے ذخائر سے تیل حاصل کرکے فروخت کرے اور اپنے قرضوں کو معاف کروالے۔ لیکن عراق کو کویت میں داخل کروانے کے بعد اس پر حملے کے منصوبے اس قدر تیزی سے زیر عمل آئے کہ عراق کی بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہورہا ہے اور عرب ممالک بھی یہ نہیں سوچ سکے کہ اصل ہدف وہ خود بھی ہیں۔ ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ کویت نے اپنے 60کے قریب طیارے ایران پہنچا دیے جو جنگ کے بعد کویت کو نہیں ملے۔
ایک اہم بات یہ ہوئی کہ ایران عراق جنگ جو 1980ء میں شروع ہوئی تھی اس سے ایک سال قبل الخبر میں کچھ عمارتیں بنائی گئیں جو امریکی فوجیوں کے استعمال میں آنی تھیں ان کی تعمیر اور ساخت کی وجہ سے عرب مطوع (علما) نے ان کو رہائش کے قابل قرار دینے سے انکار کردیا۔ لیکن یہ عمارتیں اسی طرح 1979ء سے 1990ء تک موجود اور محفوظ رہیں۔ اور جب عراق کویت میں داخل ہوگیا اور اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا سمیت کئی ملکی اتحادی فوج تیار ہوگئی تو ایک روز اچانک امریکی افواج الخبر کے اس کمپائونڈ میں اتر گئیں اس کے بعد سعودی حکومت کو بھی بتادیا گیا کہ ہماری افواج یہاں رہیں گی۔ پھر یہاں سے امریکی افواج الخبر بم دھماکوں کے بعد ہی نکلیں جن کا الزام القاعدہ پر لگا اتحادی افواج نے 16 جنوری 1991ء سے 28 فروری 1991ء کے دوران کویت پر سے عراق کا قبضہ ختم کرادیا اگرچہ صدام یا عراق سے متعلق معاملہ نہیں لیکن یہاں سے خلیج میں امریکی فوجی موجودگی اور عمل دخل شروع ہوگیا۔ امریکا نے عراق کو کویت سے نکال دیا۔ البتہ امریکا کو خطے سے نکالنا عربوں کے لیے ایک مسئلہ بن گیا لیکن امریکا وہاں سے بھی اسی طرح نکلا جس طرح ویتنام اور افغانستان سے نکلا تھا۔