اسلام، ٹچ نہیں عمل کے لیے آیا ہے

371

آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب عمران خان جلسے میں تقریر کررہے ہوتے ہیں تو ان ارد گرد کھڑے لوگ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کان میں کچھ کہتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس موضوع پر عمران خان بات کررہے ہوتے اور اسی موضوع کے حوالے سے کوئی اہم نکتہ کسی ساتھی کے ذہن میں آتا ہے تو وہ اپنے لیڈر کے کان میں وہ بات ڈال دیتا ہے یہ ایک لحاظ سے اچھی بات ہے کہ اس سے مقرر کی بات میں وزن پیدا ہو جاتا ہے لیکن جب یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ بہت زیادہ ہو جائے ٹی وی پر دیکھنے والے ناظرین بور ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی مقرر بھی جھنجھلاہٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ اسی طرح آج کل دوران تقریر ایک ساتھی کا یہ جملہ جو اس نے بے خیالی میں بلند آواز سے کہہ دیا کہ ذرا اس بات کو اسلامی ٹچ دے دیں وہ بات کیا تھی ابھی تو مجھے بھی یاد نہیں ہے، لیکن یہی بات آج کل عوامی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ ہمیں اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے اسلام کی ضرورت پڑتی ہے اب اس میں یہ بات اہم ہے کہ اگر ہمارا مقصد ملک میں اسلامی تعلیمات پھیلانا ہو اور معاشرے میں اسلامی اصولوں کی ترویج و اشاعت ہو تو یہ تو ایک نیک مقصد ہے لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے ہم میں سے اکثر سیاسی لیڈر اور جماعتیں مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ بہتر جانتا ہے ہمارا مقصد کسی کی نیت پر حملہ کرنا نہیں ہے اگر ہمارے لیڈران کرام کی نیت واقعتا اس ملک میں اسلامی نظام زندی کو رواج دینا ہے تو ہم ان کے ساتھ ہیں اور ان کے لیے یہ دعا بھی کریں گے اللہ تعا لیٰ ان کو اس نیک مقصد میں کامیاب کرے۔ آمین
1977میں جب جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آئے تو انہوں نے پی ٹی وی کی خاتون انائونسرز کے لیے سر پر دوپٹا اوڑھنے کو لازمی قرار دے دیا چنانچہ تمام انائونسرز نے اس پر عمل درآمد شروع کردیا لیکن اس وقت کی پاکستان ٹیلی وژن کی ایک معروف انائونسر مہتاب چنا جو بعد میں مہتاب راشدی بن گئیں نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے پی ٹی وی سے استعفا دے دیا۔ دوپٹا اسلامی معاشرت کی اہم نشانی ہے شرم و حیا کا ایک سمبل ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب 1986 میں بینظیر بھٹو کو پاکستان آنا تھا اور ظاہر کے آنے کا مقصد ملکی سیاست میں حصہ لینا تھا تو امریکا میں مختلف ادارے یا ایسی کمپنیاں ہوتی ہیں جنہیں تھنک ٹینک بھی کہا جاتا ہے جو سیاسی حوالے سے رابطہ کرنے والے سیاستدانوں کو کچھ گائیڈ لائن دیتی ہیں یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ اشتہاری کمپنیاں ہوتی ہیں جو آپ کی پروڈکٹ کے لیے اشتہاری مہم چلاتی ہیں اور اس کے لیے وہ بھاری معاوضہ وصول کرتی ہیں، اسی طرح سیاست کے حوالے سے ایسے مشاورتی ادارے ہوتے ہیں وہ ہر ملک کے سیاست دانوں کو اس ملک میں کامیابی حاصل کرنے کے حوالے سے کچھ سفارشات مرتب کرکے دیتے ہیں اور اس کا وہ بھاری معاوضہ وصول کرتی ہیں یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لیے مہینوں بلکہ برسوں اس ملک کے سیاسی سماجی اور اقتصادی صورتحال کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے اس ملک کے عوام کی تاریخی و تہذیبی روایات کا گہرائی سے مطالعہ کرنا پڑتا ہے اس ملک کے عوام کی دلچسپیوں اور شوق کو دیکھنا پڑتا ہے۔ چنانچہ یہی ہوا کہ بے نظیر جب 1986 میں لاہور ائر پورٹ پر تشریف لائیں تو ان کے سر پر دوپٹا اور ہاتھ میں تسبیح تھی اور 1986 سے 2007 تک کہ اپنے آخری جلسے میں جس میں وہ شہید کی گئیں ان کے ہاتھ میں تسبیح اور سر پر دوپٹا تھا ان کو بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں اگر آپ کو سیاست کرنا ہے تو ان اسلامی روایات کا خیال رکھنا ہوگا۔ اسی طرح ہم آج کل مریم نواز کو بھی دیکھتے ہیں کہ ان کے سر پر ہر وقت دوپٹا رہتا ہے۔
1970 میں ملک میں جو انتخابات ہوئے اس میں جماعت اسلامی کے اسلامی نظام کا نعرہ بہت مقبول ہوا اور اس کی عام قبولیت کی اہم مثال 31مئی 1970 کا یوم شوکت اسلام کا جماعت اسلامی کا پاور شو تھا اس یوم شوکت اسلام کی عظیم الشان کامیابی نے مخالفین کے ہاتھوں کے توتے اڑا دیے اس کے بعد سے پیپلز پارٹی نے اپنے اس نعرے میں شدت پیدا کی کہ اسلام ہمارا دین ہے جمہوریت ہماری سیاست ہے سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ایک دفعہ مولانا مودودی نے کہا تھا کہ اس ملک میں اسلام کا نام لیے بغیر کوئی لیڈر سیاست نہیں کرسکتا۔ سکرنڈ میں بریلوی علماء کی ایک کانفرنس ہوئی اس میں جمعیت علمائے پاکستان کو فعال کیا گیا اس کا دوسرا نام جماعت اہل سنت رکھا گیا اور ایک جذباتی قسم کا مذہبی نعرہ نبی کا جھنڈا اونچا رہے گا دیا۔ دیوبندی عقیدے کی جماعت جمعیت علمائے اسلام جس کے صدر مولانا غلام غوث ہزاروی تھے اور سیکرٹری مولانا مفتی محمود تھے نے یہ نعرہ لگایا کہ ہم ملک میں شریعت نافذکریں گے۔ 1977 میں دوبارہ انتخاب کے لیے جب بھٹو کے خلاف تحریک چل رہی تھی تو اس کے اندر مذہبی رنگ اور جوش پیدا
کرنے کے لیے اسے تحریک نظام مصطفی کا نام دیا گیا یہ نعرہ شاہ احمد نورانی کا تھا کہ ہم ملک میں نظام مصطفی نافذ کریں گے جماعت اسلامی اسلامی نظام کا نعرہ لگاتی تھی اور جے یو آئی شریعت کے نفاذ کا اعلان کرتی تھی یہ تینوں نعرے ایک ہی چیز کی تشریح کرتے تھے ملک میں اللہ کے قانون کو نافذ کیا جائے۔
اس تفصیل میں جانے کا مقصد اس نکتے کی وضاحت کرنا ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لہٰذا اسلامی انقلاب اس کی منزل ہے اگر اس ملک میں اسلام کا نفاذ نہ ہو سکا تو خدا نہ خواستہ یہ ملک بھی قائم نہیں رہ سکے گا موجودہ حکومت ریاست مدینہ کا نام لیتی ہے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کا نعرہ بھی لگاتی ہے امین اور صادق کی بھی بات کی جاتی ہے حالانکہ امین اور صادق کے حوالے سے میں معروف صحافی جناب ہارون رشید کے اس موقف کی حمایت کرتا ہوں یہ لقب دنیا میں نبی اکرمؐ کے لیے ہے کسی اور کو یہ خطاب نہیں دیا جاسکتا آج کل دو سیاسی قوتوں کے درمیان سیاسی کشمکش جاری ہے موجودہ حکمران جماعت پی ڈی ایم جو بارہ جماعتی اتحاد ہے یہ بھی اسلام کی بات کرتی ہے لیکن ان کے دور میں اسٹیٹ بینک نے ملک کے چار بڑے بینکوں کو اپنے ساتھ ملا کر سود کی پابندی جو شریعت عدالت نے عائد کی تھی کے خلاف عدالت عظمیٰ میں پٹیشن داخل کی ہے۔ حالانکہ اس اتحاد میں اہم جماعت جے یو آئی ہے جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ہیں، مولانا یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ سود کا جاری رہنا اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرنے کے مترادف ہے مولانا نے اس مسئلے پر وزیر اعظم شہباز شریف سے بات تو کی ہے لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا اسی طرح پی ٹی آئی سے بھی ہم یہی کہیں گے اپنی سیاست میں اسلام کا ٹچ نہ دیں بلکہ اپنی سیاست کو یا سیاسی جدوجہد کو مکمل اسلامی لبادہ اوڑھا دیں۔