سیاسی قطب

369

عمران خان کا وزیر اعظم بننا حیرت انگیز تھا ان کی حکومت کا دھڑن تختہ ہونا بھی حیران کن تھا اور اب الیکشن کمیشن کی جانب سے فارن فنڈنگ کا جو فیصلہ آیا ہے وہ بھی چشم کشا ہے مگر ان سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بولے بغیر عمران خان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا خاموش ہیں ان کے حاشہ برداروں کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اتنا مضحکہ خیز ہے کہ ان کی ہنسی رکنے کا نام ہی نہیں لیتی اس ضمن میں شاہ محمود قریشی کا بیان واقعی اتنا مضحکہ خیز ہے کہ ہنسی نہیں رک رہی ہے۔
مضحکہ جب اشک بے تاثیر پر ہونے لگا
مثل اشک اپنے پسینے میں تر ہونے لگا
موصوف کا ارشاد گرامی ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ تحریک انصاف کی جیت ہے فتح مبین ہے اگر ان کے بیان پر غور کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ تحریک انصاف کی جیت ہے اور عمران خان کی ہار ہے کیونکہ ہار جیت کے اس کھیل میں قریشی صاحب جیسے سیاستدانوں کے فائدے کا امکان ہے عمران خان کو نا اہل قراردیا گیا تو قریشی صاحب کو عمران خان کی جگہ ملنے کا امکان ہے اور موصوف کو اس کی توقع ہے۔
عمران خان وزیر اعظم بنے تھے تو ہم نے کہا تھا ان کی وزارت آزمائشی عرصہ ہے کیونکہ ان کی جماعت میںکچھ ایسے لوگ ہیں جو بہت کچھ کرنے کے لیے تحریک انصاف میں آئے ہیں ورنہ… کوئی بھی سیاست دان کسی سیاسی رنگ روٹ کی قیادت قبول نہیں کرتا یہی وہ لوگ ہیں جو عمران خان کو باور کراتے رہے ہیں کہ پاکستانی ایک جنگجو قوم ہے جنگجوئی کی کیمسٹری یہ ہے کہ وہ نرمی کو بزدلی سمجھا جاتا ہے سو، وہ کسی بھی ایسے شخص کو اپنا قائد نہیں مانتا جو نرم لہجے میں بات کرتا ہو کہ اس کی خدائی کا دارو مدار خدائی لہجے پر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مقتدر قوتوں نے جہانگیرترین کا انتخاب کر لیا ہے کہ تحریک انصاف کا دھڑن تختہ اسی طرح ممکن تھا عمران خان کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے یہی وجہ ہے عام انتخابات کے انعقاد کے واویلے سے گریز پا دکھائی دیتے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ کون سے سیاستدان تحریک انصاف کو چھوڑ کر عوامی تحریک انصاف کا رخ کرتے ہیں کہ ہماری سیاست ہوا کے رخ پر ہی چلتی ہے۔ کہا جاتا ہے مراد سعید جیسے لوگ کہیں نہیں جا سکتے جو تحریک انصاف کی پیداوار ہیں مگر معروف اپنا ووٹ بینک رکھنے والے سیاست دان جہانگیر ترین کو مایوس نہیں کریں گے آخر دید لحاظ بھی کوئی چیز ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو بچوں کی چیز سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔
عمران خان کے حمایتی اور حاشہ برداروںکا کہنا ہے کہ بیرورنی ممالک سے چندہ لینا کوئی جرم نہیں کہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں چندے پر ہی پلتی ہیں۔ تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کو الیکشن کمیشن نے جرم قرار دے دیا ہے اب مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی فارن فنڈنگ کا فیصلہ بھی سنایا جائے گویا وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ فارن فنڈنگ بھی یہی ہے مگر وہ فارن فنڈنگ لینے پر شرمندہ نہیں ان کے خیال میں یہ چندا عمران خان کو دیا گیا تھا یہ عمران خان کی مرضی ہے کہ وہ اس چندے کو شوکت خانم اسپتال کے لیے خرچ کرتے ہیں یا تحریک انصاف کے استعمال میں لاتے ہیں کیونکہ اس کا بنیادی مقصد خیرات کرنا ہے گویا ان کی نظر میں شوکت خانم اسپتال اور وزارت عظمیٰ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں مگر یہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں کہ ہوائیں اپنا رخ بدل چکی ہیں اور تحریک انصاف کو ہوا کے رخ کا سامنا کرنا ہی پڑے گا مگر مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ عمران خان اور ان کے ہم نوا ایک ہی راگ کورس کی صورت میں الاپ رہے ہیں کہ اور سیز پاکستانیوں نے جو فنڈنگ کی ہے وہ فارن فنڈنگ کیسے ہوئی اسے فارن فنڈنگ قرار دینے والے اور سیز پاکستانیوں کو ملک دشمن قرار دینے کا شرم ناک کوشش ہے۔
عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کی فارن فنڈنگ سامنے لائی جائے یہ ایک ایسی حقیقت پسندانہ بات ہے جس سے انکار کی گنجائش ہی نہیں مگر یہ کہنا کہ فوری طور پر اس کا فیصلہ ہو غیر دانشمندانہ بات ہے کیونکہ عمران خان کی فارن فنڈنگ کا فیصلہ آٹھ سال بعد ہوا اور قابل غور بات یہ ہے فارن فنڈنگ مقدمہ تحریک انصاف کے ایک رہنما نے کیا تھا اور اس کے ثبوت بھی اسی نے دیے تھے اور اس کے باوجود فیصلہ سنانے میں آٹھ سال لگ گئے قوم کے آٹھ برس عمران خان کی وجہ سے ضائع ہوئے کیونکہ فارن فنڈنگ کے معاملے میں احساس جرم پر میں مبتلا تھے اور آج بھی اس جرم پر بضد ہیں کہتے ہیں کہ سیاسی فنڈنگ کے بغیر سیاسی جماعتیں نہیں چل سکتیں اس معاملے میں سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہیر کو آدھا قطب کہنے والے عمران خان کو پورا قطب کہنے پر بضد ہیں۔